انوکھا کیس، نئی ڈگر

Last Updated On 14 November,2019 09:20 am

اسلام آباد: (خاور گھمن) مملکت خداداد پاکستان نے بہت سے سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن جو کچھ آج کل شہر اقتدار میں ہو رہا ہے یہ اپنی نوعیت کی منفرد صورتحال ہے۔ 20 سالہ صحافتی کیرئیر میں ا یسی سیاسی فضاء اور ہنگامہ خیزی نہیں دیکھی، ہر طرف کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے۔ بڑے صحافی ہوں یا معتبر ترین ذرائع صورتحال کے بارے میں قطعی رائے قائم کرنے سے قاصر ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کو لیکر بھی ہر کوئی اپنی اپنی تھیوری پیش کرتا نظر آتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ مولانا بغیر کسی اشارے کے یہ انتہائی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ مولانا نے جس طرح مارچ شروع کیا اورپھر اسکو دھرنے میں تبدیل کر دیا ، ان کے پیچھے ضرور کوئی ہے بہت سارے لوگوں کا یہ کہنا ہے۔ 15 دن سے جاری دھرنے کو دیکھ کر بھی لگتا یہی ہے کہ انہیں کہیں نہ کہیں سے مدد ضرور مل رہی ہے لیکن مبینہ مدد کا محور کہاں پر ہے ابھی تک اس کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کیلئے کھانے کا انتظام کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔

ایک طرف مولانا فضل الرحمن اسٹیبلشمنٹ پر تیر برساتے نظر آتے ہیں تو بعض تبصرہ نگار اشاروں اشاروں یہ باور کروا رہے ہیں کہ مولانا کو مدد بھی انہی حلقوں سے مل رہی ہے۔دوسری طرف اب یہ رائے تقویت پا چکی ہے کہ نواز شریف کا بیرون ملک جانا کسی ڈیل کے بغیر ممکن نہیں۔ نوازشریف بیمارضرورہیں اورایک سے زیادہ میڈیکل بورڈز کے مطابق ان کا علاج صرف اور صرف بیرون ملک ہی ممکن ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شریف خاندان ماضی میں بند دروازوں کے پیچھے طاقتور حلقوں کیساتھ معاملات کرنے کا بھرپور ٹریک ریکارڈ رکھتا ہے لیکن اس بار ابھی تک ان افواہوں کے ٹھوس شواہد کسی کے ہاتھ نہیں لگ سکے۔ اب مولانا فضل الرحمن نے پلان بی کا ا علان کر دیا ہے جس میں احتجاج کا دائرہ کار ملک بھر تک بڑھایا جائے گا اور بڑے شہروں اور مرکزی شاہرائوں کو بند کرکے کاروبار زندگی مفلوج کر دیاجائے گا۔یوں حکومت کی طرف سے رٹ چیلنج کرنے کیخلاف طاقت کا ا ستعمال حکومت کیلئے بڑی مشکل کھڑی کر سکتا ہے اور اگر اتحادی ذرا سا بھی پیچھے ہٹ گئے تو تحریک انصاف کو اپنی حکومت بچانے کے لالے پڑ سکتے ہیں۔

دوسری جانب عدالت سے نواز شریف کو ضمانت مل چکی ہے ، میڈیکل بورڈ بھی ان کے علاج سے متعلق دوٹوک رائے دے چکا ہے ، اس لیے اب حکومت ان کا نام ای سی ایل میں رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے مختلف قانونی پہلوئوں کا جائزہ لے رہی ہے ، یوں یہ صورتحال حکومت کیلئے بھی مشکل کا باعث بن چکی ہے ، وزیر اعظم عمران خان پہلے دن سے آج تک این آر او نہ دینے کی بات کرتے آ رہے ہیں لیکن اب اگر نواز شریف باہر چلے جاتے ہیں تو اپوزیشن خاص کر پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن حکومت پر چڑھ دوڑنے کایہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے حالانکہ ابھی تک وہ خاموش ہیں، لیکن کیا(ن ) لیگ 2 اہم اپوزیشن جماعتوں کے اس بیانیے کوقبول کرے گی کہ نواز شریف ڈیل کے تحت باہر گئے ہیں،یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے۔

اگر ڈیل یا این آر او پر اپوزیشن جماعتیں سخت مؤ قف لیتی ہیں تو (ن ) لیگ سے دوریاں یقینی ہیں، یہ صورتحال (ن) لیگ کو اسٹبلشمنٹ کے قریب بھی لاسکتی ہے اور حکومت کو سر دست شاید یہ قبول نہ ہو۔

آج کی سیاسی صورتحال میں ایک اور بیانیہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ اب حکومت اور مقتدر حلقے ایک پیج پر نہیں رہے اور آنیوالے دنوں میں یہ بات واضح ہو جائے گی ۔ اس کی بڑی وجہ اپوزیشن کی جانب سے ریاستی اداروں پر بڑھتی تنقید ہے۔ اداروں کا خیال ہے کہ سیاسی چپقلش ان کی بدنامی کا سبب بن رہی ہے اور ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہاہے۔ ہم نے بھی دیکھا کہ ریاستی اداروں پر ایسی براہ راست تنقید ماضی قریب میں کم ہی دیکھنے کو ملی ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم عمران خان اس وقت دو دھاری تلوار پر چل رہے ہیں،نواز شریف کی صحت کو اگر ملک میں رہتے ہوئے ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے تو تحریک انصاف کی حکومت شاید رد عمل برداشت نہ کر پائے۔ جب یہ لائنیں لکھی جا رہی ہیں حکومت اور مسلم لیگ (ن )سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ کس طرح نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنا ہے۔ کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا کیس ہے۔ ابھی تک موجودہ شواہد کی موجودگی میں اگر نواز شریف ملک سے باہر جاتے ہیں تو یہ پاکستانی عدالتی تاریخ کا واحد کیس ہو گا جس میں ایک مجرم علاج کیلئے بیرون ملک سفر کرے گا۔ہزاردلیلوں کے باوجود عمران خان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس تمام صورتحا ل میں تحریک انصاف کی بیڈ گورننس جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے ، اشیائے خور و نوش کی قیمت میں ہوشربا اضافے نے عوام کوشدید نالاں کر رکھا ہے۔ معیشت کی ابتر صورتحال سے عوام مایوسی کا شکار ہیں۔ پشاور کا میٹرو پروجیکٹ ہو، پنجاب کے اندر پولیس اصلاحات ہوں یا پھر وفاق میں اداروں کی تنظیم نو کا معاملہ ہو ابھی تک کسی بھی جگہ سے خیر کی خبر نہیں آئی۔ یوں عمران خان کی حکومت کو اب فوری طور پر بڑے فیصلے کرنا ہوں گے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکاہے ،مزید غیر مقبول فیصلے تحریک انصاف کی حکومت کو بیچ منجدھار میں لاکر کھڑا کر دیں گے۔