لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ملکی سیاسی منظر نامہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے بڑا امتحان بنا ہوا ہے، اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو بھی فی الحال آگے کچھ نظر نہیں آ رہا، ان کی اولین ترجیح مشکل صورتحال میں کسی بڑے سیاسی کردار کے بجائے اپنی لیڈر شپ اور ان کو در پیش مشکلات اور مقدمات سے نجات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر حکومت ملک کو در پیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب نظر نہیں آ رہی تو دوسری جانب اپوزیشن کے اندر بھی ایسی کوئی تحریک یا متبادل پروگرام نہیں کہ وہ ملک کو در پیش معاشی اور اقتصادی چیلنجز کے حوالے سے کہہ سکیں کہ ان کے پاس ایسا نسخہ، فارمولا یا پروگرام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ معیشت کے حوالے سے مایوسی کی کیفیت ہے اور فی الحال ایسا نظر بھی نہیں آ رہا کہ مستقبل قریب میں حکومتی اقدامات کے نتائج سامنے آ سکیں اور مسائل زدہ عوام کو کوئی ریلیف ملے، بنیادی سوال یہ سامنے آ رہا ہے کہ منتخب حکومت کی موجودگی کے باوجود آخر کیوں کر نتائج سامنے نہیں آ رہے ؟ موجودہ سیاست کیونکر فعال کردار ادا نہیں کر پا رہی؟ جو ہماری قومی ضرورت سمیت سیاسی اور جمہوری تقاضوں کو پورا کر سکے۔
دنیا کی سیاسی تاریخ میں جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں سیاست اور جمہوریت کو عام آدمی کی حالت زار میں بہتری اور ان کی زندگی میں اطمینان کے ساتھ مشروط کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں سیاسی استحکام بھی قائم ہوتا ہے اور سیاسی استحکام کے باعث اقتصادی حوالے سے بھی ملک اور معاشرے ترقی کرتے ہیں لیکن بد قسمتی ہے جب ہم پاکستان میں جمہوریت، جمہوری عمل اور اس کے نتائج پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم سیاست کی ایسی بند گلی میں کھڑے ہیں جو ہمیں آگے لے جانے کے بجائے پیچھے کی جانب گھسیٹ رہی ہے، لوگوں کی زندگیوں میں اطمینان آنے کے بجائے ان پر عرصہ حیات تنگ ہوتا نظر آ رہا ہے، مہنگائی، بے روزگاری کا رجحان انہیں ہلکان کئے ہوئے ہے اور اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ جمہوری عمل اور انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی حکومتوں کی ترجیحات میں قوم و ملک کے مسائل کے بجائے ذاتی اور سیاسی مفادات سامنے آ جاتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں بحران حل ہونے کے بجائے شدید تر ہوتے جاتے ہیں۔
جب بداعتمادی عروج پر ہو اور ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے کی خواہش پر ممکنہ اقدامات بروئے کار لائے جائیں تو پھر وہی حالات پیدا ہوتے ہیں جن سے آج ملک دو چار ہے اور حقیقت یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کیونکر نہیں چاہیں گے کہ معاشی صورتحال بہتر ہو، ملک میں سرمایہ کاری کا عمل مؤثر ہو تو جوانوں کیلئے روزگار کے مواقع بنیں۔ عوام کی زندگیوں میں اطمینان پیدا ہو اور خصوصاً گورننس کا خواب حقیقت کا رنگ اختیار کرے لیکن اگر یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ہو نہیں پا رہا تو اس کی بڑی وجہ خود حکمرانوں کو تلاش کرنی ہے، اس کے اقدامات کے نتائج پیدا نہیں ہو رہے۔ مہنگائی کے خاتمہ کیلئے جاری ہدایات کی روشنی میں مہنگائی کا سدباب ہونے کے بجائے اس کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ منافع خور اور ذخیرہ اندوز دندناتے نظر آتے ہیں، اپوزیشن مذکورہ صورتحال میں حکومت کی رہنمائی اور ایشوز پر توجہ دینے کے بجائے حکومت سے نجات کے ہتھکنڈے اختیار کرتی نظر آتی ہے۔