لاہور: (روزنامہ دنیا) مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف وزیر اعظم ہاؤس سے جیل اور پھر جیل میں بیمار ہو کر بیرون ملک روانہ ہونے تک کئی مراحل سے گزرے۔
مئی 2013 میں انتخابات کے بعد پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم بنے، 2016 میں پاناما لیکس کا سکینڈل منظر عام پر آیا جس کے بعد موجودہ وزیر اعظم اور اس وقت کے اپوزیشن رہنما چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور دیگر نے کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر دیں، عدالت عظمٰی نے معاملے کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنائی۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو متحدہ عرب امارات میں اپنے بیٹے کی کمپنی کے ملازم ہوتے ہوئے تنخواہ کی تفصیلات فراہم نہ کرنے کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے تاحیات نااہل قرار دے دیا اور نیب کو ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیدیا۔ نااہلی کے بعد ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں انہیں سزا ہوئی، پہلے انہیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل اور دوسری مرتبہ کوٹ لکھپت جیل لاہور بھیج دیا گیا۔
دوران اسیری انہیں متعدد مرتبہ صحت کے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران نواز شریف کو اپنی پارٹی کی صدارت سے بھی نااہل قرار دیا گیا، نیب عدالت نے 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو بالترتیب 10 سال، 7 سال اور ایک سال کی سزا سنائی۔ اس وقت نواز شریف لندن میں بیمار اہلیہ کے پاس تھے، وہ گرفتاری کیلئے اپنی بیٹی کے ساتھ 13 جولائی 2018 کو لاہورپہنچ گئے، جہاں سے نواز شریف اور مریم نواز کو نیب کی ٹیم نے لاہور ایئرپورٹ سے حراست میں لے کر اڈیالہ جیل منتقل کیا۔
11 ستمبر 2018 کو انکی اہلیہ بیگم کلثوم نواز طویل علالت کے بعد 68 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں، جس کے بعد نواز شریف کو پیرول پر رہا کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 19 ستمبر 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطل کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا۔ راولپنڈی کی احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے عائد کیے جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کر دیا۔ نواز شریف کو اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا اور بعدازاں کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کر دیا گیا۔ انہیں سپر یم کورٹ نے طبی بنیاد پر ایک بار ضمانت دی۔
10 اکتوبر 2019 کو نیب نے چودھری شوگر ملز کیس میں جیل سے حراست میں لے کر لاہور کی احتساب عدالت پیش کیا۔ 21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہوئی اور انہیں کوٹ لکھپت جیل سے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد کے پلیٹ لیٹس خطرناک حد تک کم ہوگئے جس کے بعد انہیں ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کی گئی۔ نواز شریف کے علاج کے لیے ایک 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا، 24 اکتوبر کو شہباز شریف نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست کے لیے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے الگ الگ رجوع کیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں جو درخواست دائر کی گئی وہ چودھری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت کی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست العزیزیہ ریفرنس میں ضمانت سے متعلق تھی۔
25 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ نے چودھری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرلی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی 29 اکتوبر تک عبوری ضمانت منظور کرلی۔ 29 اکتوبر کو طویل سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کر دیا۔ مریم نواز کی لاہور ہائیکورٹ سے چودھری شوگر ملز کیس میں ضمانت و رہائی کے بعد سابق وزیر اعظم 6 نومبر کو اپنی صاحبزادی کے ہمراہ سروسز ہسپتال سے جاتی امرا منتقل ہوگئے۔ اس کے بعد شہباز شریف نے بیرون ملک علاج کی غرض سے جانے کیلئے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی وزارت داخلہ کو درخواست دی۔
وفاقی کابینہ نے 7 ارب روپے کے سکیورٹی بانڈز کے عوض نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی، مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی اس شرط کو مسترد کر دیا۔ صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف نے 14 نومبر کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ 16 نومبر کو لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ ہائی کورٹ نے بانڈ کی وفاقی حکومت کی شرط کو مسترد کر دیا، 19 نومبر کی صبح پونے گیارہ بجے نواز شریف لاہور سے ایئر ایمبولینس کے ذریعے اپنے بھائی شہباز شریف کے ہمراہ لندن روانہ ہوئے، وہ منگل کی رات ساڑھے دس بجے لندن پہنچے۔