لاہور: (روزنامہ دنیا) آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں درخواست کی سماعت کاز لسٹ کے مطابق بینچ نمبر ایک میں آخری مقدمے کے طور پر کی گئی۔ حیرت انگیز طور پر درخواست گزار ریاض حنیف راہی سپریم کورٹ کے احاطے میں تو موجود تھے لیکن سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں نہیں آئے۔ انہوں نے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک درخواست بھی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے توسط سے دی جس میں اس درخواست کو واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی۔ تاہم عدالت نے ان کی اس استدعا کو مسترد کر دیا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس درخواست کو مفاد عامہ یعنی آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت سماعت کیلئے منظور کرلیا۔ عمومی طور پر اس آرٹیکل کے تحت ہونے والی کارروائی عدالت کی طرف سے از خود نوٹس کے زمرے میں بھی آتی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق اس درخواست کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل جنہیں اس درخواست میں نوٹس بھی جاری نہیں کیا گیا تھا وہ پہلے سے ہی کمرہ عدالت میں موجود تھے اور ان کے پاس وہ تمام ریکارڈ موجود تھا جو ابتدائی طور پر عدالت کو اس درخواست کیلئے درکار تھا۔
کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگ اس بات پر حیران تھے کہ ابھی اس درخواست کے معاملے پر عدالت کی طرف سے کوئی نوٹس بھی جاری نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود اٹارٹی جنرل انور منصور خان کمرہ عدالت میں موجود ہیں جبکہ عمومی طور پر ایسی درخواستوں پر اٹارنی جنرل عدالتوں میں بن بلائے نہیں جاتے۔ ابھی اس درخواست کی سماعت شروع ہی ہوئی تھی کہ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے کہا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا مدت ملازمت میں توسیع کا طریقہ کار آئین سے مطابقت نہیں رکھتا۔
انور منصور خان نے اپنے تئیں کوشش کی کہ عدالت جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل نہ کرے لیکن ان کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ عدالتی سماعت ختم ہونے کے بعد اٹارنی جنرل تیزی کے ساتھ کمرہ عدالت سے نکلے تو راستے میں انہیں کچھ صحافیوں نے روکنے کی کوشش کی تو وہ ہاتھ چھڑا کر چلے گئے۔ احاطہ عدالت میں درخواست گزار ریاض حنیف راہی بھی موجود تھے جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اپنی درخواست کو واپس لینے کی درخواست کیوں دی تو ان کا کہنا تھا درخواست واپس لینے کیلئے ان پر دباؤ تھا تاہم انہوں نے اس کی تفصیلات نہ بتائیں۔