لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) عالمی سطح پر منائے جانے والے انسانی حقوق کے عالمی دن کو مقبوضہ وادی کشمیر میں یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا۔ مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں، خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات، نوجوانوں کو پیلٹ گنز کے ذریعے اندھا کرنے کے عمل اور سفاک کرفیو کے 128 روز میں ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور معاملات فاقہ کشی کی نوبت پر پہنچنے پر دنیا کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کشمیریوں نے کہا کہ مہذب اقوام، بھارت کی ریاستی دہشتگردی پر ردعمل کیوں نہیں دے رہیں؟۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے دنیا سے مقبوضہ وادی میں ظلم رکوانے کا مطالبہ کیا۔ اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی دن پر عالمی برادری مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر کہاں کھڑی ہے، بھارت جیسے غاصب ملک اور اس کی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں کی ٹارگٹ کلنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کیونکر انکا ہاتھ روکا نہیں جا رہا۔ مسئلہ کشمیر کے بنیادی فریق اور وکیل کے طور پر پاکستان کا کردار کیا ہے ؟ کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور قتل و غارت پر کیا کشمیری سرنڈر کرنے کو تیار ہیں ؟۔
کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بھارت تمام تر اوچھے ہتھکنڈوں، طاقت اور قوت کے بھرپور استعمال کے باوجود کشمیریوں کی آواز دبا اور انہیں جھکا نہیں سکا۔ آج بھی کشمیر کا چپہ چپہ بھارت کے خلاف بغاوت کی علامت ہے مگر وہ نت نئی چالوں سے اس کا توڑ کرنا چاہ رہا ہے۔ دنیا میں انسانی حقوق کے ادارے اور تنظیمیں چیخ رہی ہیں کہ کشمیریوں پر بھارتی افواج نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے، قیامت صغریٰ برپا ہے۔ خواتین، بچوں، بچیوں تک پر ظلم و ستم کا ہر ہتھکنڈا آزمایا جا رہا ہے۔
جہاں تک عالمی برادری اور اس کے کردار کا تعلق ہے تو یہ انتہائی افسوسناک طرزعمل ہے کہ عالمی برادری اور خصوصاً سپر پاور نے کشمیر کے اندر جاری سفاکانہ صورتحال کے سدباب میں کسی عملی کردار کی بجائے صرف مطالبات اور تشویش پر اکتفا کیا۔ کوئی بھی غاصب اور جارح بھارت کا ہاتھ پکڑنے کیلئے تیار نہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کے معاشی مفادات ہیں۔ جہاں تک خود پاکستان کا سوال ہے تو پاکستان کی حیثیت مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کے حوالہ سے محض تماشائی کی نہیں بلکہ پاکستان اس مسئلے میں ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے۔ 5 اگست کے بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے خود کو کشمیر کا سفیر قرار دیا مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا اور سفاک کرفیو کا تسلسل بڑھتا گیا پاکستان کے اندر ردعمل ٹھنڈا پڑتا گیا۔
ہمارا احتجاج صرف قراردادوں اور بیانات اور اعلانات تک محدود رہا اور اب دنیا میں انسانی حقوق کے عالمی دن پر کشمیر کے سفیر ہمارے وزیراعظم عمران خان نے محض ایک ٹویٹ جاری کرنے پر اکتفا کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایک بڑا سیمینار منعقد ہوتا اور دنیا کو بتایا جاتا کہ اس عالمی دن پر کشمیر میں کشمیری اپنے گھروں میں نظر بند ہیں۔ عالمی طاقتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک اور آفاقی طاقت بھی ہے جس کا مظلوموں سے براہ راست رشتہ ہے اور جب دنیاوی قوتیں مظلوموں کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں تو پھر وہ حرکت میں آتی ہے اور مظلوموں کی آواز بن کر ظالموں کو نیست ونابود کر دیتی ہے لہٰذا بھارت کا بدترین انجام ڈھکا چھپا نہیں۔
کشمیریوں کو آزاد ہونا ہے اور بھارت کو اپنے اس انجام کو پہنچنا ہے جس میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ایک طرف دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا تھا تو دوسری جانب بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں تارکین وطن کی شہریت سے متعلق متنازعہ ترمیمی بل کی اکثریت سے منظوری یہ ظاہر کرتی ہے کہ نہ تو اسے کوئی انسانی حقوق کا پاس ہے اور نہ ہی وہ دو طرفہ معاہدوں کو کوئی اہمیت اور حیثیت دینے کو تیار ہے۔ یہ متعصبانہ قانون سازی اسی مائنڈسیٹ کا حصہ ہے جس پر نریندر مودی سرکار کاربند ہے۔ وہ اپنے اعمال و کردار کے ذریعہ ہندوستان کو صرف ہندوؤں کی ریاست بنانے پر بضد ہے۔