لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) آٹا بحران سے مسائل زدہ عوام کو روٹی کے لالے پڑ گئے جبکہ سیاسی قوتیں سلگتے مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اقتدار کی سیاست میں سرگرم عمل ہیں، وزرا کے بیانات مسائل سے عدم سنجیدگی کا مظہر ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن کی قیادت روایتی بیانات اور ٹویٹس کا سہارا لے کر اپنی بچی کھچی سیاست کو سہارا دینے کیلئے سرگرم ہے، کوئی بھی مسائل اورمہنگائی زدہ عوام کی آواز بننے کو تیار نہیں۔
ذخیرہ اندوز اور گراں فروش دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں اور حکومت ہے کہ جسے اب تک گندم اور آٹے کے بحران کا ادراک تک نہیں کہ وافر گندم ہونے کے باوجود گندم اور آٹے کا بحران کیسے پیدا ہوا ؟ کس نے کیا ؟ اور مقاصد کیا ہیں ؟ لہٰذا عوامی سطح پر یہ احساس عام ہوتا نظر آ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں اور ریاست اپنے ہی عوام کیلئے ماں جیسا کردار ادا کرنے سے عاری ہے، ایسا کیوں ہے ؟ سیاسی قوتیں اپنی ساکھ کیوں کر کھو رہی ہیں ؟ حکومت کو مسائل کا ادراک کیوں نہیں ؟ مافیاز کیوں کر دندناتے نظر آ رہے ہیں اور اس صورتحال میں حالات کا رخ کیا ہوگا ؟۔
ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں کبھی فاقہ کشی کی نوبت نہیں آئی، کتنی بھی ابتر صورتحال ہو،عوام کیلئے دال روٹی کا بندوبست ہو جاتا تھا لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اب دال روٹی کا مسئلہ بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آ رہا ہے اور کسی بھی سطح پر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا، گندم اور آٹے کے بحران کے حوالے سے دو تین ماہ سے چہ مگوئیاں جاری تھیں لیکن جواب آ رہا تھا کہ گندم وافر موجود ہے، ایسی کوئی بات نہیں، سندھ حکومت کو چار لاکھ ٹن گندم دی گئی مگر انہوں نے صرف ایک لاکھ ٹن اٹھائی، کچھ ایسی ہی صورتحال پختونخوا میں رہی اور پنجاب تو گندم کا گھر ہے، پنجاب کی گندم دیگر صوبوں کے ساتھ بعض ہمسایہ ممالک تک جاتی ہے مگر ایسا کیوں کہ پنجاب میں بھی آٹے کی قیمتیں 70 روپے کلو کو چھوتی نظر آ رہی ہیں اور پنجاب کے ذمہ دار یہ دہائی دیتے نظر آ رہے ہیں کہ یہاں کوئی بحران نہیں، اگر بحران نہیں تھا تو وزیراعظم عمران خان کو کیوں اعلان کرنا پڑا کہ ذمہ داروں کے خلاف بڑا آپریشن ہوگا، ذخیرہ اندوزوں اور آٹا مہنگا بیچنے والوں کو فوری گرفتار کر کے ان کے گودام سیل کئے جائیں گے۔
مگر وزیراعظم کے نوٹس کے باوجود ایک وزیر کہتے ہیں کہ سفید آٹا صحت کیلئے مضر ہے، یہ کھانا چھوڑ دیں، دوسرے وزیر کا کہنا ہے کہ نومبر، دسمبر میں عوام روٹی زیادہ کھاتے ہیں، جس سے آٹے کا بحران پیدا ہوا، تیسرے کہتے ہیں کہ قیمت وہی رکھیں مگر روٹی چھوٹی کر دیں، اس بے رحمی اور ایسی مضحکہ خیزی کا کیا علاج ہو سکتا ہے ؟ مگر اس کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ایسی بحرانی کیفیت میں سیاسی جماعتیں عوام کی آواز بنتی ہیں، مگر کوئی باہر آنے اور کردار ادا کرنے کو تیار نہیں، ن لیگ کے صدر شہباز شریف لندن سے ٹویٹ کرتے ہیں کہ گندم کیسے باہر گئی، انکوائری کرا لیں، لیکن اپنی جماعت کے ذمہ داروں کو اس حوالے سے ہدایت نہیں دے رہے کہ آگے بڑھیں اس سلگتے مسئلے پر اپنا کردار ادا کریں اور عوام کی جیبیں کاٹنے والوں کو بے نقاب کریں مگر بات بیانات اور ٹویٹس تک ہی محدود رہی۔
دوسری جانب حکومت اصل مسئلہ کا ادراک کرنے اور مافیاز کا کھوج لگانے کے بجائے وہی پکڑ دھکڑ، گودام سیل کر دو، لائسنس معطل کر دو کے اقدامات کے اعلانات کر رہی ہے لیکن کیا ان انتظامی ہتھکنڈوں سے بحران ٹل جائے گا ؟ لگتا یہ ہے کہ اس پکڑ دھکڑ سے خوف کی فضا پیدا ہوگی اور اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور کم ہو سکتی ہے اور یہ بحران مزید بڑھ سکتا ہے، اس کیلئے سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی، لگتا ہے کہ حکومت کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی، صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری نبھانے کے بجائے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر سبکدوش ہونا چاہتی ہیں، آٹا انڈسٹری والے چکی والوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، چکی والے گندم کی عدم دستیابی کا رونا رو رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے فیکٹرز کا عمل دخل ہے، ماضی کی حکومتوں پر ذمہ داری ڈالنے والی حکومت اب یہ نہیں کہہ سکتی کہ گندم اور آٹا اپوزیشن نے چھپا رکھا ہے۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ سندھ میں بحران پیدا ہوا تھا تو حکومت الرٹ ہو جاتی اور بروقت اقدامات کرتی، مگر ہمارے ہاں وقت پر اقدامات کی روایت نہیں، جب تک مسائل سر پر نہ آ پڑیں، حکومتیں ٹس سے مس نہیں ہوتیں اور یہی وجہ ہے کہ اب یہ بحران حکومت کیلئے بڑا چیلنج بن گیا ہے، لیکن سب سے بڑی سیاسی بد قسمتی یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں سیاسی قوتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں، مگر انہوں نے عوام کو حالات اور خصوصاً ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، دوسری جانب ریاست اور حکومت کے بندوبست سے بھی لوگ مطمئن نہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ صرف اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے تحت کرتے ہیں، انہیں عوام کی حالت زار، ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، یہ بہت بڑا سیاسی المیہ ہے اور سوال یہ کھڑا ہو رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور حکومتوں سے مایوسی کا رجحان کس چیز کو جنم دے گا ؟ اور آخر کیوں آج سیاسی جماعتوں کے اندر کوئی تحریک اور احساس نہیں کہ وہ عوام کی ترجمانی میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ اگر اس سیاست نے عوامی اور قومی مسائل سے صرف نظر جاری رکھا اور ان کی جانب سے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب ہوتا رہا تو یہ مزید غیر متعلق ہوں گی اور پھر پاکستان کے جمہوری مستقبل کے آگے سوالیہ نشان آ جائے گا، یہ کسی طرح ملک کیلئے اچھا شگون نہیں ہوگا، گیند سیاسی قوتوں کے کورٹ میں ہے کہ اپنی جماعتوں کو عوام کے مسائل سے منسلک کریں، اپنے بیانیہ کو واضح کریں اور جمہوری اقدام پر خود کو منظم کریں، انہیں سمجھنا ہوگا کہ عوام ان سے لا تعلق ہو رہے ہیں، ان وجوہات کا جائزہ لینا پڑے گا کیونکہ سیاسی قوتوں کا عوام سے لا تعلق ہونا ایسا حادثہ ہے، جو بہت سے حادثات کو جنم دے سکتا ہے اور خود منتخب حکومت کیلئے بھی بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ خود کو بچانے کیلئے صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے جمہور کی حالت زار پر توجہ دے اور ان کا جینا اجیرن بنانے کے بجائے ان کیلئے ریلیف کا بندوبست کرے ورنہ ایسی حکومتیں جب گرتی ہیں تو اس پر کوئی آنسو بہانے والا بھی نہیں ہوتا۔