آئی جی سندھ کی تبدیلی کا معاملہ بڑا ایشو کیوں بنتا ہے ؟

Last Updated On 30 January,2020 09:48 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) معاشی مسائل میں گھرے ملک میں آئی جی سندھ کی تبدیلی بڑا ایشو بننے پر سنجیدہ حلقے تشویش ظاہر کرتے نظر آتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ آئی جی سندھ کی تبدیلی کے ایشو کو اتنی غیر معمولی اہمیت نہیں ملنی چاہئے اور اٹھارویں ترمیم کے تحت جب یہ صوبہ کا استحقاق ہے تو اس میں مرکز کو روڑے اٹکانے کی ضرورت کیوں پیدا ہوئی۔ اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر آئی جی سندھ کی تبدیلی کا عمل ہر دور میں بڑے ایشو کے طور پر کیونکر سامنے آتا ہے۔ دیگر صوبوں میں ایسا کیوں نہیں ہوتا۔

وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے درمیان مشتاق مہر کے نام پر اتفاق ہونے کے بعد یہ نام کابینہ نے کیوں مسترد کیا اور اب نئے آئی جی کے تعین میں تاخیر کیوں ہے۔ سندھ میں آئی جی کی تعیناتی کے عمل میں پریشانی کی ایک بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ مرکز اور سندھ میں اقتدار کی ہم آہنگی نہیں ہوئی، سندھ حکومت آئی جی کو اپنے طریقہ پر چلانا چاہتی ہے اور اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے بھی پولیس کو استعمال کرنا اپنا سیاسی استحقاق سمجھتی ہے۔ دوسری جانب مرکز سندھ پر اپنے کنٹرول کیلئے آئی جی کی تعیناتی کا اختیار استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا آئی جی سندھ کا عہدہ سندھ میں اسٹیبلشمنٹ اور سندھ حکومت کے درمیان کشمکش کا باعث بن جاتا ہے۔

مشتاق مہر کو آئی جی لگانے کی کوشش اس لئے رائیگاں گئی کہ وزیراعظم عمران خان کو سندھ میں ان کے اتحادیوں نے بتایا کہ سندھ حکومت کرپشن اور سیاسی مخالفین کو دبانے اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے سوا کچھ نہیں کرتی اور اگر اس مرحلہ پر سندھ حکومت کی فرمائش پر کوئی پولیس افسر آئی جی لگایا گیا تو سندھ کی زمین مخالفین پر تنگ کر دی جائے گی لہٰذا ایسا آئی جی لگایا جائے جو پولیس کو سیاست سے پاک رکھتے ہوئے غیر جانبدارانہ انداز میں امن وامان کی صورتحال بحال کرے اور مذکورہ تحفظات پیر پگاڑا اور ان کے اتحادیوں نے وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھے تھے جبکہ وزیراعظم عمران خان اس آئینی پوزیشن پر کاربند رہے کہ سندھ میں آئی جی سندھ حکومت کی مشاورت سے لگایا جائے گا۔

آئی جی سندھ کلیم امام کے حوالہ سے سندھ حکومت کا بڑا اعتراض یہ رہا کہ انہوں نے سندھ حکومت کے بعض ذمہ داران اور وزرا کے جرائم پر مشتمل رپورٹس تیار کر کے حکومت کو فراہم کی ہیں اور کہا تھا کہ ان کے خلاف کارروائی تک سندھ میں امن وامان یقینی نہیں بن سکے گا۔ مشتاق مہر پر ایسے تحفظات سامنے آئے کہ کراچی پولیس کے چیف کی حیثیت سے سندھ حکومت ان پر اعتماد کرتی رہی اور وہ سندھ حکومت کے اعتماد پر پورا اترتے رہے۔ ہمارے ہاں جاری جمہوری سسٹم میں امن وامان سمیت انتظامی معاملات میں آئی جی پولیس چیف سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری کے تابع کہلاتا ہے لیکن سندھ کے آئی جی کو ملنے والی غیر معمولی اہمیت و حیثیت ظاہر کرتی ہے کہ سندھ جیسے صوبہ کو مکمل طور پر سندھ حکومت کی من مرضی پر چلایا نہیں جا سکتا کیونکہ کراچی اور بڑے شہروں میں امن و امان کی بحالی کیلئے ہونے والے سکیورٹی اداروں کے اقدامات پر آج کی صورتحال میں کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا وفاقی حکومت محض سندھ حکومت کی خوشنودی اور خواہش پر آئی جی نہیں لگانا چاہتی۔لگ یہی رہا ہے کہ دیگر سیاسی امور کی طرح کسی نئے نام پر ہی اتفاق ہوگا۔

 

Advertisement