لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان سے تعلق ختم کرنے کے بیان سے بلی تھیلے سے باہر آگئی، یہ واضح تھا کہ افغان صدر اشرف غنی امریکا طالبان معاہدے کو آسانی سے قبول نہیں کرینگے کیونکہ اس معاہدہ میں اصل نقصان بھارت اور افغانستان میں اشرف غنی کا تھا، اسی لئے بھارت نے افغان صدر کے ذریعے رنگ میں بھنگ ڈالا، اشرف غنی کی جانب سے آنے والے بیانات اور اعلانات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان پر پاکستان کا بخار سوار ہے اور وہ بھارتی آشیرباد پر پاکستان کو ٹارگٹ کرتے نظر آ رہے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ امریکا کو خود اپنے معاہدہ پر عملدرآمد کرانا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کون کس طرح سے اس پر اثرانداز ہونا چاہتا ہے، امریکا کے ذمہ دار ذرائع کے حوالہ سے یہ موقف سامنے آ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ اتنی بڑی پیش رفت کے بعد اس معاہدے سے پسپائی اختیار نہیں کریں گے کیونکہ معاہدہ کی رو سے امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے، لہذا افغانستان میں موجود ہر شخص یہ سمجھ لے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے معاہدے پر ہر صورت عملدرآمد چاہتے ہیں جبکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ طالبان کا معاہدہ امریکا سے ہوا ہے اور اس پر عملدرآمد کیسے ہونا ہے یہ ہمارا نہیں امریکا کا مسئلہ ہے۔
مذکورہ صورتحال پر مغربی سفارتکاروں کے اندر تشویش بھی پائی جا رہی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع نہ ہوا تو معاہدہ کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ خود امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو، امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر اب بھی پرامید ہیں کہ اختلافات کے باوجود قیدیوں کی رہائی کا عمل معاہدہ کے مطابق ہوگا، ابھی وقت ہے کہ امریکا طالبان سے اپنے معاہدہ کی ساکھ کیلئے اشرف غنی کو شٹ اپ کال دے ، اگر اگلے چند روز میں صدر اشرف غنی کی سرگرمیوں اور بیانات میں تبدیلی نہیں آئی اور وہ بھارتی ایجنڈے پر گامزن رہتے ہوئے اس معاہدے پر اثرانداز ہونے کی کوشش جاری رکھتے ہیں تو پھر خود امریکا کے آگے سوالیہ نشان کھڑا ہوگا، پاکستان نے جو کردار ادا کرنا تھا کیا اب فریقین کو ایک دوسرے کیلئے گنجائش پیدا کرنا ہوگی۔
افغانستان میں امن کے حوالے سے پیش رفت خصوصاً انٹرا افغان ڈائیلاگ کے آغاز سے متعلق گیند امریکا کے کورٹ میں ہے، مذکورہ معاہدے کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو چین، روس سمیت تمام مغربی قوتوں نے اس معاہدے کی تائید کی ہے مگر خود افغان صدر اشرف غنی اور بھارت کو یہ ہضم نہیں ہو پا رہا لہٰذا آنے والے چند روز میں بڑا چیلنج انٹرا افغان ڈائیلاگ کے عمل کا آغاز ہے، اگر یہ عمل بروقت اور بامقصد رہتا ہے تو پھر کوئی یہاں اپنا مذموم کھیل نہیں کھیل سکے گا، پاکستان اور بھارت کے حوالے سے اگر افغانستان کے حالات پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان نے ہمیشہ افغان سر زمین میں امن اور استحکام کیلئے کردار ادا کیا ہے جبکہ بھارت نے افغان سر زمین کا اپنے مذموم عزائم کیلئے استعمال کیا، لہٰذا اگر آنے والے وقت میں افغان سر زمین پر بھارت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی کردار سونپا گیا تو یہاں امن کا خواب حقیقت نہیں بن سکے گا، البتہ طالبان کو افغانستان کے مستقبل کی بڑی قوت کے طور پر دل بڑا رکھنا ہوگا اور دیگر گروپوں اور جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔