لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) افغان امن عمل کیلئے ہونے والے معاہدہ کے چوبیس گھنٹے میں ہی افغان صدر اشرف غنی نے دوسری پریس کانفرنس داغتے ہوئے اعلان کر دیا کہ قیدیوں کی رہائی کیلئے فیصلے کا اختیار افغان حکومت کو ہے۔ امریکا قیدیوں کی رہائی میں صرف مدد فراہم کر رہا ہے لہٰذا طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ مذاکرات کی پیشگی شرط نہیں بن سکی البتہ یہ معاملہ انٹر افغان ڈائیلاگ کے مذاکرات کا ایجنڈا بن سکتا ہے جس کیلئے اگلے نو روز میں کمیٹی بنا دی جائیگی۔
ایک روز قبل مذکورہ معاہدہ کا خیر مقدم کرنے اور اسے افغانستان میں امن کے حوالے سے اہم قرار دینے والے صدر اشرف غنی 24 گھنٹے کے اندر ہی اس پر پسپائی پر کیونکر مجبور ہوئے اور کیا انٹر افغان ڈائیلاگ کا عمل کامیابی سے آگے چل پائے گا۔ امریکا طالبان سے ہونے والے معاہدہ پر کتنا پہرہ دے گا اور دہشت گردی کے خاتمہ کی ذمہ داری لینے والے طالبان کس حد تک معاملات آگے چلا پائیں گے۔ صدر اشرف غنی قیدیوں کی رہائی کو مشروط قرار دیتے ہوئے یہ بھول گئے کہ یہ عمل خود امریکا طالبان معاہدہ کی شق ہی میں موجود ہے کہ انٹر افغان ڈائیلاگ کے آغاز پر قیدیوں کی رہائی کا اعلان ہو گا اور یہ عمل تین ماہ میں مکمل ہوگا۔
لگتا یوں ہے کہ افغان صدر اشرف غنی دودھ میں مینگنیں ڈالنا چاہتے ہیں اور گند ڈال کر اپنے لئے کسی مقام کی تلاش میں ہیں۔ صدر اشرف غنی کے حوالے سے پہلے ہی ان خطرات اور خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ وہ امریکا طالبان مذاکراتی عمل اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے معاہدے کو دل سے قبول نہیں کریں گے کیونکہ جب سے امریکا او رطالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کا بخار ہوا ہے اس روز سے ہی اشرف غنی حکومت کی رٹ، اس کی اہمیت و حیثیت میں بہت حد تک کمی آ چکی تھی اور یہ تاثر عالمی علاقائی اور مقامی طور پر عام تھا کہ امریکا افغانستان سے اپنے انخلا کیلئے طالبان سے مذاکرات چاہتا ہے اور کر رہا ہے کیونکہ یہ طالبان ہی تھے جنہوں نے بیرونی مداخلت کو قبول نہیں کیا تھا بلکہ افغان سر زمین کو امریکی اور نیٹو افواج سے پاک کرنے کیلئے عملاً جدوجہد کی تھی اور اس اٹھارہ انیس سالہ جدوجہد میں انہوں نے کسی بھی سطح پر کمپرومائز نہ کیا اور ایک وقت ایسا آ یا کہ خود بین الاقوامی میڈیا خصوصاً بی بی سی نے یہ رپورٹ دی تھی کہ افغانستان کے تقریباً 70فیصد علاقہ پر طالبان کا کنٹرول ہے اور عملاً اشرف غنی انتظامیہ کابل تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
امریکا کو یہاں اپنی کٹھ پتلی حکومتوں سے گلہ تھا کہ انہیں مسند اقتدار پر بٹھانے کے باوجود وہ نہ صرف یہاں اپنی رٹ قائم کر سکے بلکہ الٹا امریکی افواج بھی یہاں اپنا تسلط قائم نہ کر سکیں اور افغانستان کی سرزمین ان کیلئے دلدل ثابت ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ اپنی افواج کو بیرونی ممالک سے واپس لائیں گے اور اس طرح امریکی معیشت کو پہنچنے والے اربوں کھربوں ڈالرز کا ضیاع بند کریں گے۔ پہلے پہل تو امریکی صدر نے اپنی قومی سلامتی کی پالیسی اور بعدازاں افغان پالیسی کا اعلان کرتے وقت پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی ہزیمت کا ذمہ دار اسے ٹھہرایا اور کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ میں امریکی ڈالرز ہڑپ کر گیا جبکہ بعدازاں چین، روس سمیت دیگر ممالک نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف خدمات کو سراہا اور واضح کیا کہ پاکستان افغان امن کے حوالے سے مخلص ہے اور اس کا فارمولا بروئے کار لا کر یہاں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
بعدازاں صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ، پاکستان اسٹیبلشمنٹ کی ملاقاتوں اور افغانستان کے اصل حقائق سامنے آنے پر امریکی صدر ٹرمپ نے طالبان سے براہ راست مذاکرات کا فیصلہ کیا اور اس میں پاکستان نے اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے انہیں سہولت فراہم کی اور مذاکراتی عمل شروع ہوا۔ اس مذاکراتی عمل کی صدر اشرف غنی اور بھارت کی جانب سے پرزور مخالفت کی جاتی رہی اور انہیں یقین سے کہا گیا کہ یہ معاہدہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے گا لیکن یہ امریکا اور طالبان دونوں کی کوششوں سے ممکن بن پایا۔ امریکا پیچھے جانا چاہتا تھا اور طالبان امن کیلئے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ اس معاہدے کا پوری دنیا میں بے حد خیر مقدم کیا جا رہا ہے مگر اصل منزل کی طرف سفر انٹر افغان ڈائیلاگ کی کامیابی کی کوشش کرنی ہے اور اس میں مسلسل امریکا کو بھی نظر رکھنی ہوگی کیونکہ کابل میں امن نہ چاہنے والے تمام مایوس عناصر اس ڈیل کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاہدے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے جو سگنلز دئیے ہیں وہ کافی حد تک مایوس کن ہیں کیونکہ اشرف غنی نے دوحہ معاہدے کی ایک شق پر لب کشائی کر کے تمام اندیشوں کو ایک زبان دے دی ہے۔
معاہدے میں 10 مارچ کو شروع ہونے والے انٹر افغان ڈائیلاگ سے پہلے گرفتار قیدیوں کو دونوں فریقین نے چھوڑنا ہے اور اعتماد سازی کی فضا کو مزید خوشگوار بنانا ہے مگر افغان صدر نے اس شق کو معاہدہ کا حصہ ماننے سے انکار کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس صورتحال میں افغان طالبان کا بھی ردعمل سامنے آئے گا اور اس کے بعد اندازہ لگایا جا سکے گا کہ معاملات کس جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہ ذمہ داری اب امریکا کی ہوگی کہ وہ افغان سیاسی قوتوں کو ہر لحاظ سے آمادہ کرے کیونکہ افغان صدر کی حیثیت محض ایک کٹھ پتلی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ بہرحال وہ اور ان کے سیاسی حلیف اور حریف ایک سیاسی حقیقت ہیں اور بظاہر افغان طالبان بھی اس کا ادراک اور اعتراف کرتے ہیں۔ امریکہ اور تمام بیرونی قوتوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ باہر کی افواج سے کسی سرزمین پر قابض ہو کر جس طرح اپنی مرضی سے ایک نئی قوم اور من پسند ریاست نہیں بنائی جا سکتی اس طرح افغانستان میں امن بھی باہر کی خواہش سے نہیں آئے گا اس کیلئے بھی کابل اور افغانستان کے اندر خواہش ہوگی تو پھر امن کو منزل نصیب ہوگی۔
دنیا یاد رکھے کہ یہی سب عراق، لیبیا اور شام میں ہوا۔ افغانستان خود بھی جنیوا معاہدے کے بعد اس صورتحال سے گزر چکا ہے اور امریکا و پاکستان پہلے اس صورتحال سے دوچار ہو چکے ہیں۔ اب انٹر افغان ڈائیلاگ ایک تنی ہوئی رسی کی مانند ہو چکے ہیں جس پر تمام افغان قوتوں کو بہرحال چل کر سفر طے کرنا ہے اور کسی مثبت نتیجے تک پہنچنا ہے وگرنہ دوحہ معاہدہ بھی اپنا اثر اور اہمیت کھو دے گا۔ اس مرکزی نقطے کو سمجھ کر امریکا اور پاکستان کو اپنی اپنی سٹریٹجی دوبارہ طے کرنی ہوگی۔ افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کے کردار کو دیکھا جائے تو ساری ذمہ داری اب اسلام آباد کو لینی پڑے گی۔ اس سلسلے میں توازن بھی اختیار کرنا ہوگا کیونکہ طالبان پہلے ہی پاکستان کا دم بھرتے ہیں اور کابل انتظامیہ پاکستانی اداروں کے ساتھ ایک شکوک و شبہات والا نظریہ رکھتی ہے۔ اس معاہدے کے بعد اب امریکا سے بھی اشرف غنی انتظامیہ لازمی طور پرخفا ہے۔ اس لیے دوسرے معاہدے کیلئے بھی پاکستان کو اپنے حصے کے علاوہ امریکا کا بھی بوجھ اٹھانا ہوگا تبھی جا کر کسی مثبت نتیجے پر پہنچا جا سکے گا۔ پاکستان ہمیشہ یہ ذہن میں رکھے کہ امن کابل کے بعد سب سے زیادہ ضرورت پاکستان کی ہے تو پھر یہ بوجھ ڈھونا اس کیلئے آسان ہوگا۔