افغانستان میں امن کیلئے پاکستانی کوششیں کامیاب، طالبان امریکا معاہدہ طے پا گیا

Last Updated On 29 February,2020 11:16 pm

دوحہ: (ویب ڈیسک) 2001ء میں نیو یارک میں ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد شروع ہونے والی افغان جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کامیاب سفارتی کوششوں کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدہ طے پا گیا۔

 قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے اس امن معاہدے میں طالبان کی جانب سے ملا عبد الغنی برادر جبکہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے امن زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے۔

 قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی اس تقریب میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔ 50 ممالک کے نمائندوں کی شرکت کی، معاہدے پر دستخط کے پیِشِ نظر طالبان کا 31 رکنی وفد بھی قطر کے دارالحکومت میں موجود تھے۔ حیران کن طور پر طالبان کی قید میں 3 سال رہنے والے آسٹریلین یونیورسٹی کے پروفیسر ٹموتھی ویکس بھی معاہدے کی تقریب میں شرکت کیلئے دوحہ میں موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا طالبان امن معاہدے کے اہم نکات

معاہدے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان طالبان کے نمائندہ ملا عبد الغنی برادر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان کے خصوصی طور پر شکر گزار ہیں۔ کامیاب معاہدے پرتمام فریقوں کومبارکباد دیتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ چین ،روس اور انڈو نیشیا سمیت تمام ان ممالک کے شکر گزار ہیں جنہوں نے امن عمل کو سپورٹ کیا۔ ہم اس معاہدے کو نبھانے کے پابند ہیں ،سیاسی طاقت کی حیثیت سے ہم تمام ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں ۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قطری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ قطر حکومت نے معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے کردارادا کیا، امن معاہدہ مرحلہ وارمذاکرات کے نیتجے میں ممکن ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ قطر سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا فریقین سمیت عالمی برداری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ہماری حکومت نے معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے کردار ادا کیا جس سے افغانستان میں 19 سالہ جنگ کا خاتمہ اور پائیدار امن کی راہ ہموار ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: وعدوں پرعمل نہ ہوا تو معاہدہ ختم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرینگے: امریکا

قطری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امن معاہدہ مرحلہ وار مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوا جبکہ معاہدے کو حتمی شکل دینے پر تمام فریقین کا کردار قابل تعریف ہے۔

امریکی سیکرٹری سٹیٹ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ افغان عوام معاہدے پرخوشیاں منارہے ہیں، طالبان کے معاہدے پر عمل درآمد کو مانیٹر کرتے رہیں گے۔ طالبان تب مذاکرات کے لئے تیار ہوئے جب انہیں یقین ہوا لگا کہ لڑائی کے ذریعہ برتری ممکن نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا طالبان امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں: وزیراعظم عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ افغان اورامریکی فورسز نے امن کے لیے ملکرکام کیا۔ تاریخی مذاکرات کی میزبانی پرامیرقطرکے شکرگزارہیں۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امن کے لیے زلمے خلیل زاد کا کردارقابل تعریف ہے۔ طالبان کے ساتھ دہائیوں کے بعد اپنے اختلافات ختم کررہے ہیں۔

دوسری طرف افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکی سفارتکاروں کے ساتھ امن معاہدے سے قبل طالبان نے اپنے حامیوں کو ہر قسم کے حملے کرنے سے روک دیا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم حکم دیتے ہیں کہ قوم کی خوشیوں کے لیے ہر قسم کے حملوں سے باز رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ ہمیں امید ہے کہ امریکا مذاکرات اور امن معاہدے کے دوران اپنے وعدے پر قائم رہے گا لیکن غیرملکی افواج کے طیارے طالبان کے علاقوں پر پرواز کرع رہے ہیں جو اشتعال انگیزی پر مبنی اقدام ہے۔

معاہدے سے قبل امریکا اور افغان حکومت کا مشترکہ بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ طالبان نے معاہدے پر عمل کیا تو امریکا اور اتحادی 14 ماہ تک افغانستان سے تمام افواج نکال لیں گے۔

مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکا معاہدہ کے 135 دنوں کے اندر فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا، فوجیوں کا انخلا طالبان کے معاہدے پر عمل در آ٘مد سے مشروط ہوگا، افغان حکومت سلامتی کونسل کے ساتھ مل 29 مئی تک طالبان کے نمائندوں کے نام پابندیوں کی فہرست سے نکالے گی۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور دیگر برادر ممالک کے تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، معاہدے میں اہم کرداراداکرنےپرامریکی وزیردفاع کےشکر گزار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں افغان عوام نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔ 19 سالوں میں 1 کروڑ لوگ بے گھر ہوئے، تمام فریقین معاہدے کی پاسداری کریں گے،

واضح رہے کہ دستخط تقریب سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان عوام پر نئے مستقبل سے فائدہ اٹھانے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے سے 18 سالہ تنازع ختم ہونے کا امکان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان اور افغانستان کی حکومت ان وعدوں پر قائم رہتے ہیں تو ہمارے پاس افغانستان میں جنگ ختم کرنے اور اپنے فوجیوں کو گھر واپس لانے کا بہترین راستہ ہوگا۔

علاوہ ازیں برطانوی خبر رساں ادارے سے طالبان رہنما ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا ہے کہ طالبان کے لیے معاہدے کی شرائط سخت نہیں ہے سوائے اسکے کہ افغان تنازع سیاسی بات چیت کے ذریعے حل ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے اس پر مشورہ بھی کیا ہے کیونکہ طالبان نہیں چاہتے کہ سوویت یونین کے نکلنے کے بعد افغانستان میں مجاہدین والا تجربہ دہرایا جائے بلکہ ان کی خواہش ہے کہ جنگ کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل شروع ہو جو صلح اور اتفاق سے ہی ممکن ہے اور یہ افغانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

اس تاریخی موقع کے حوالے سے قطر میں مقیم وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ امریکا اورافغان طالبان کے درمیان امن معاہدے سے خطے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ افغانستان میں امن سے وسطی ایشیا کے ساتھ ہمارے روابط بڑھیں گے۔

وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ امن واستحکام سے پاکستان اورافغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے شاندار مواقع پیدا ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن سے پاکستان کو کاسا1000منصوبے سے استفادہ کرنے اور ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

واضح رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہی امریکا اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے متعدد مرتبہ بات چیت کی تھی۔ گزشتہ برس اگست 2019ء میں دونوں فریق ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بہت قریب آگئے تھے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ستمبر میں افغانستان میں طالبان سے امریکی فوجیوں پر حملے کے بعد مذاکرات روک دیے تھے۔

لیکن چند ہی ہفتوں کے اندر دوحہ مذاکرات کے لیے ایک مرتب پھر راہ ہموار ہوگئی، اور ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ بات چیت ختم کرنے کے پانچ ماہ سے بھی کم عرصے میں امریکا اور طالبان اب ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے۔

افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ حکومت نے طالبان سے ابتدائی رابطے قائم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ طالبان کی جانب سے کیے گئے مطالبے کے نتیجے میں کمیٹی قائم کی ہے اور طالبان کے مطالبے ہمارے بین الاقوامی اتحادیوں نے ہم تک پہنچائے ہیں۔

Advertisement