تہران: (دنیا نیوز) ایران نے گزشتہ روز امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اسے افغانستان میں اپنی غیر قانونی موجودگی کا جواز قرار دیدیا ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام صرف طالبان اور افغانیوں کے درمیان امن مذاکرات سے ہی ہوگا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے اس معاہدے کا مقصد افغانستان میں اپنی غیر قانونی موجودگی کا جواز فراہم کرنا ہے۔ ایران افغانستان کی خود مختاری اور پائیدار امن سے متعلق ہر معاہدے کا خیر مقدم کرے گا۔
ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ امریکا کے پاس امن معاہدے اور افغانستان کے مستقبل کا تعین کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز 19 سال سے افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کیلئے امریکا اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تاریخی امن معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں جس میں طے پایا ہے کہ اگر طالبان معاہدے کی پاسداری کریں گے تو 14 ماہ کے اندر تمام امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔
معاہدے کے تحت یہ ضمانت دی گئی ہے کہ افغانستان میں ایک ایسا طریقہ کار بنایا جائے گا جس کے تحت افغانستان کی سرزمین کسی بھی گروہ کی جانب سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
معاہدے کے تحت یہ ضمانت بھی دی گئی ہے کہ تمام غیر ملکی افواج ایک طے شدہ مدت میں افغانستان سے نکل جائیں گی۔
بین الاقوامی گواہوں کی موجودگی میں ان دونوں امور پر فریقین کی طرف سے اعلانات ہونے کے بعد امارت اسلامی افغانستان (جنہیں امریکا کی طرف سے ریاست تسلیم نہیں کیا گیا اور جنہیں طالبان کے نام سے جانا جاتا ہے) وہ افغانستان کے مختلف فریقوں سے 10 مارچ 2020ء سے بین الافغان مذاکرات شروع کریں گے۔
بین الافغان مذاکرات کے دوران افغانستان میں مستقل اور جامع جنگ بندی ایک اہم جزو ہو گا۔ فریقین اس جنگ بندی کی تاریخ اور تفصیلات مذاکرات کے دوران طے کریں گے جس کا اعلان افغانستان کے مستقبل کے سیاسی روڈمیپ کے ساتھ ہی کیا جائے گا۔
معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہ امریکا امارت اسلامی افغانستان کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں طالبان کے نام سے ہی پکارتا ہے ،اس میں کہا گیا ہے کہ چاروں نکات ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں اور پہلے دو نکات پر عمل سے ہی اگلے دو پر عمل کا راستہ ہموار ہو گا۔
امریکا نے کہا ہے کہ وہ 14 ماہ میں افغانستان سے اپنی اور اتحادیوں کی تمام افواج بشمول تمام غیر سفارتی سول افراد، نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز اور مشیروں کے انخلا کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کرے گا۔
پہلے ساڑھے 4 ماہ کے دوران امریکی افواج کی تعداد کم کر کے 8 ہزار 600 کی جائے گی اور اسی تناسب سے اتحادی افواج کی تعداد بھی کم کی جائے گی۔ اسی عرصے میں امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان میں موجود 5 فوجی اڈوں سے تمام افواج کو نکال لیں گے۔
اگر طالبان اس دوران معاہدے کی پاسداری کرتے رہے تو امریکا اور اس کے اتحادی اگلے ساڑھے 9ماہ میں تمام افواج کو افغانستان سے نکال لیں گے اور افغانستان کے باقی تمام فوجی اڈوں کو بھی خالی کر دیں گے۔
معاہدے کے تحت امریکا 10 مارچ تک اعتماد سازی کے اقدامات کے تحت طالبان کے 5 ہزار قیدی رہا کرے گا جبکہ دوسرا فریق بھی ایک ہزار قیدی 10 مارچ کو رہا کر دے گا اور اسی دن بین الافغان مذاکرات کا آغاز بھی ہو گا۔ فریقین اگلے 3 ماہ میں تمام قیدیوں کو رہا کرنے کی کوشش کریں گے۔
معاہدے میں کہا گیا ہے کہ امریکا قیدیوں کو رہا کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے جبکہ طالبان اس عمل کو یقینی بنائیں گے کہ رہا کئے گئے قیدی امریکی سلامتی کے لئے خطرہ نہ بنیں،بین الافغان مذاکرات کے شروع ہوتے ہی امریکا طالبان سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف لگائی گئی پابندیوں کا انتظامی جائزہ لے گا تاکہ 27 اگست 2020ء تک یہ پابندیاں ختم کی جا سکیں۔
بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے بعد امریکا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان سے بات چیت شروع کرے گا تاکہ طالبان سے تعلق رکھنے والے افراد کو اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست سے 29 مئی 2020 تک نکالا جا سکے ،امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کے خلاف دھمکی یا طاقت کے استعمال اور اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں گے۔