لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت نے جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالہ سے اپنے انتخابی نعرے پر پیش رفت کرتے ہوئے پہلے مرحلہ کے طور پر بہاولپور میں سیکرٹریٹ بنانے کا اعلان کیا ہے جہاں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی تعینات کئے جائیں گے۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کیلئے ساڑھے تین ارب کے فنڈز مختص کئے جائیں گے۔ مذکورہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرنے والے جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے جنوبی پنجاب صوبہ کیلئے اہم جماعتوں سے مشاورت کر کے ان کی تائید بھی حاصل کی جائے گی، اپریل میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کی تقرری عمل میں آئے گی دونوں میں سے ایک افسر بہاولپور اور دوسرا ملتان میں موجود ہوگا۔ لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا سیکرٹریٹ کے قیام کو جنوبی پنجاب صوبہ کی جانب اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ملتان کے بجائے بہاولپور میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے قیام پر حکمران جماعت میں اتفاق ہو گیا ؟ تحریک انصاف کی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے مشاورت ہوگی۔ کیا سیکرٹریٹ کا قیام جنوبی پنجاب میں احساس محرومی کے خاتمہ کا باعث بن سکے گا ؟۔
جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبہ کے قیام کی تاریخ اور جدوجہد بہت پرانی ہے، مختلف ادوار میں اسے سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا اور اس حوالہ سے دباؤ آنے پر منتخب ایوانوں میں قراردادیں پاس کرنے پر اکتفا کیا گیا لیکن عملاً یہاں احساس محرومی کے خاتمہ اور ترقی کے حوالہ سے سنجیدہ کوشش اور کاوش نہیں ہوئی۔ 2018 کے انتخابات سے قبل ن لیگ کو چھوڑ کر بعض ارکان نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے پلیٹ فارم قائم کیا بعدازاں یہ گروپ تحریک انصاف میں شامل ہو گیا۔ حکومت کے قیام کے بعد اس پلیٹ فارم پر سرگرم ہونے والوں کا احساس محرومی وزارتیں دے کر دور کر دیا گیا مگر صوبہ کے حوالہ سے کوئی سنجیدہ پیش رفت نہ ہوئی۔ نئے صوبوں کے حوالہ سے پیدا ہونے والی تحریک کی بڑی وجہ یہاں ضلعی حکومتوں کے سسٹم کا موثر اور فعال نہ ہونا ہے۔ اگر ضلعی حکومتوں کا سسٹم مضبوط ہوتا اور مقامی اور شہری مسائل کا سدباب مقامی سطح پر ہوتا تو نئے صوبوں کے قیام کی تحریک زور نہ پکڑتی۔ نہ جانے کیوں سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے اندر تو نئے صوبوں کو قومی ضرورت بیان کرتی ہیں مگر کوئی پیش رفت کرنے کو تیار نہیں۔
پنجاب کے حوالہ سے ہمیشہ یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ رقبہ اور آبادی کے حوالے سے گورننس کیلئے پنجاب کی تقسیم ناگزیر ہے، آج بھی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ گیارہ کروڑ کا صوبہ مزید صوبوں میں تقسیم کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہر حکومت اس حوالہ سے بیانات اور اعلانات تو کرتی رہی مگر عملاً اقدامات سے گریزاں ہے۔ جنوبی پنجاب صوبے کیلئے پہلے مرحلے کے طور پر سیکرٹریٹ بنانے کو بڑی پیشرفت تو کہا جا سکتا ہے مگر اس کے نتیجے میں جنوبی پنجاب صوبے کا قیام موخر نظر آ رہا ہے۔ اس کی بظاہر بڑی وجہ ایک کمزور سیاسی حکومت ہے جس کے پاس نہ تو صوبائی ایوان میں دو تہائی اکثریت ہے اور نہ ہی وفاق میں۔ دوسرا بڑا مسئلہ اس حکومت کا کئی بحرانوں میں بیک وقت پھنسے رہنا ہے۔ اپنی ساکھ کے بحران سے دوچار حکومت سے یہ توقع رکھنا ہی غلط ہے کہ وہ اتنا بڑا انتظامی فیصلہ کر کے صوبے کے 4 کروڑ سے زائد سرائیکی عوام کیلئے علیحدہ صوبہ بنائے گی۔ پنجاب جیسے بڑے اور سیاسی طور پر زرخیز اور فیصلہ ساز صوبے کی تقسیم کے متعلق فیصلے کرنے کیلئے ایک وسیع تر قومی اتفاق رائے چاہئے جو موجودہ تلخ سیاسی فضا اور احتساب کے یکطرفہ ماحول میں ممکن نہیں کیونکہ اس وقت حکومت کو اگر اپوزیشن کی مرضی کو بھی شامل کرنا ہوا تو پھر اس کی قیمت شاید موجودہ حکومت اپوزیشن کی مشترکہ قیادت کو نہ دے سکے۔
دوسرا بڑا سوال یہ ہے کہ حکمران جماعت کے اندر بھی اس معاملے کو لے کر بہت تقسیم ہے۔ پی ٹی آئی کے اندر دو بڑے گروپس ہیں۔ ایک کی نمائندگی شاہ محمود قریشی کرتے ہیں۔ دوسرے دھڑے کی قیادت جہانگیر خان ترین کرتے ہیں۔ شاہ محمود کا جھکاؤ ملتان کے حق میں اور جہانگیر ترین کی منشا بہاولپور کے حق میں ہے۔ اس صورتحال میں دو اور بھی گروپ موجود ہیں۔ ایک ق لیگ ہے جس کے بشیر چیمہ بہاولپور کے حق میں اور دوسرا بڑا گروپ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے لوگ ہیں جو ضلعی طور پر ملتان کو نیا صوبائی کیپیٹل بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب چونکہ عمران حکومت نے بظاہر سیکرٹریٹ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو بہرحال اس سے محرومی تو کم نہیں ہوگی مگر بے چینی ضرور کم ہوگی۔ اب بھی یہ اقدام سیاسی دباؤ کا نتیجہ لگتا ہے مگر حقیقتاً جنوبی پنجاب صوبہ کی منزل بہت دور ہے۔ حکومت کو چاہئے جلد از جلد با اختیار بلدیاتی نظام بھی لاگو کر دے تاکہ جمہوریت گلی اور محلے کی سطح پر نافذ ہو جائے۔