اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ کی تشویش عیاں ہے، عید شاپنگ پر پابندی معیشت کا گلہ گھونٹ دے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے کاروبارپر پابندیاں نرم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ 10 مئی سے کام کاج کا مرحلہ وار آغاز ہوگا۔ الحمد للہ پاکستان میں کورونا وائرس قابو سے باہر نہیں ہوا۔
پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ کے میزبان نے کہا لاک ڈاؤن کی وجہ سے دہاڑی دار بہت زیادہ متاثر ہوئے، اس کا اعتراف وزیر اعظم بھی بارہا کرچکے ہیں، یہ بہتر خبر ہے کہ ایک بار پھر معیشت کا پہیہ چلے گا، دنیا بھی کچھ ایسا ہی کر رہی ہے، امریکا، یورپ میں بھی نظام زندگی بحال ہونا شروع ہوگیا ہے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی معید یوسف نے کہا تمام فیصلے ڈیٹا اور تجزیہ کو سامنے رکھ کر کئے گئے اب بھی ویسا ہی ہو رہا ہے، ایک طبقہ کہتا ہے لاک ڈاؤن جاری رکھا جائے، دوسرا کہتا ہے لاک ڈاؤن ختم کیا جائے، ہمارے پاس اب موجود صحت کی سہولیات پہلے سے بہتر ہیں، اسی لئے لاک ڈاؤن میں نرمی لانے کا سوچا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا 14 اپریل کے بعد آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن کو کھولنا شرع کر دیا، امریکا انتہا پر جاکر واپس آیا ہے تو اس نے لاک ڈاؤن کو کھولنا شروع کیا ہے، ہم تو ابھی پیک کی جانب بڑھ رہے ہیں اور لاک ڈاؤن میں نرمی لا رہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد مرکز صرف ڈائریکشن دے سکتا ہے، باقی کام صوبوں کا اپنا ہوتا ہے۔
پروگرام کے میزبان کے مطابق شریف ہوں یا زرداری نیب سے چھٹکارہ ممکن نہیں۔ نیب قوانین میں ترامیم کا اطلاق پرانے کیسز پر نہیں ہوگا، خالص کاروباریوں کی داد رسی ہو جائے گی، سیاستدانوں اور ان کے فرنٹ مینوں کی خلاصی نہیں ہوگی۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا شہباز شریف پر کیس اثاثہ جات کی انکوائری کا ہے، دوران اقتدار ان کے اور خاندان کے اثاثے بڑھے، انہی چیزوں کی نیب تحقیقات کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا جو سوالات شہباز شریف سے پوچھے جا رہے ہیں وہ ان کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ یہ سلسلہ نہ ختم ہونے والا لگتا ہے اسے عدالت میں لے جانا چاہئے۔
شہزاد اکبر نے کہا نیب قوانین اور 18 ویں ترمیم کے حوالے سے چہ مگوئیاں جاری ہیں، جو ڈرافٹ زیر گردش تھا وہ غیر سنجیدہ ہے، اس پر بات نہیں ہوگی، قانون میں جب ترمیم ہوتی ہے تو سب پر اطلاق ہوتا ہے جو اس دائرہ میں آتے ہیں، ترمیم اپوزیشن رہنماؤں کا ریلیف سامنے رکھ کر نہیں کی جائے گی۔