لاہور: (دنیا نیوز) وزیرِ اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہےکہ شہباز شریف نے 23 جعلی فرنٹ کمپنیوں اور ٹی ٹی کے ذریعے اپنے بیوی بچوں اور خاندان کو نوازا۔ آل شریف اور آل زرداری پاکستان کی سیاست کے وہ ٹی ٹی ماسٹرز ہیں جو کرپشن کی تعلیم و تربیت دیتے ہیں۔
فیاض الحسن چوہان نے اپنے بیان میں کہا کہ جعلی کمپنیوں کو خاندان، رشتے داروں اور شریف خاندان کے ذاتی ملازمین کے ذریعے چلایا جاتا رہا۔ شریف خاندان نے ان 23 جعلی کمپنیوں اور ٹی ٹی کے ذریعے 17.5 ارب کی ٹرانزیکشنز کیں۔ 2015 سے قائم جی این سی نامی کمپنی کو نثار احمد اور علی احمد خان نامی افراد چلاتے رہے۔ نثار احمد شہباز شریف کا ڈائریکٹر پولیٹیکل اور علی احمد خان ڈائریکٹر سٹریٹیجی و پالیسی رہا ہے۔ نثار احمد اور علی احمد خان جعلی کمپنی چلانے کے ساتھ وزیرِ اعلیٰ آفس میں بھی تعینات تھے۔
فیاض الحسن چوہان نے مزید کہا کہ جی این سی کمپنی کے تین بنک اکاونٹس میں سات ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کی گئیں۔ جی این سی نے رمضان شوگر مل کے ساتھ کاروبار ظاہر کر کے جعلی قرضے بھی حاصل کیے۔ گُڈ نیچر کمپنی سے شریف خاندان کا ملازم مسرور انور رقوم نکلواتا رہا۔ مسرور انور نے 29 مارچ 2017 کو گڈ نیچر کمپنی کے اکاؤنٹ سے 19 ملین روپے کیش نکلوائے۔ اپریل 2017 میں اس مسرور انور نے شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں تقریباً 16 ملین روپے جمع کرواۓ۔ صرف جی این سی کمپنی سے شعیب قمر اور مسرور انور نے 1257 ملین روپے نکلواۓ۔ یہ تمام رقم شہباز شریف، ان کے خاندان اور کاروباری امور میں استعمال ہوتی رہی۔ اپریل میں ہی شہباز شریف نے چیک کے ذریعے 14.7 ملین راولپنڈی کے ایک پراپرٹی ڈیلر کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی۔ اس رقم سے شہباز شریف نے اپنی اہلیہ تہمینہ درانی کے لیے دو وِلاز خریدے۔
فیاض الحسن چوہان نے مزید کہا کہ مسرور انور نے حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں 25 ملین کی رقم جمع کروائی۔ یہ رقم بھی جی این سی اکاؤنٹ سے ن لیگی کیش بوائز کے ذریعے تین مختلف ٹرانزیکشنز کے ذریعے نکالی گئی۔ اس رقم سے حمزہ شہباز نے جوہر ٹاؤن میں پلاٹ خریدے۔ 23 جعلی کمپنیوں کا شہباز شریف اور حمزہ شہباز سے تعلق سارے پاکستان کو نظر آ رہا ہے۔ شہباز شریف قوم کو بتائیں جی این سی اور مسرور انور وغیرہ سے انکا کیا تعلق بنتا ہے۔ کرپشن سے ملک کی جڑیں کھوکھلے کرنے والوں کو احتساب نے حواس باختہ کر دیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ ن لیگ "چور مچاۓ شور" کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔