لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) ایک جانب ملک بھر میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا عمل جاری ہے تو دوسری جانب اس بحرانی اور ہیجانی کیفیت میں اٹھارویں آئینی ترمیم میں کچھ خامیوں کو دور کرنے کے عمل کے حوالہ سے چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہے۔ حکومتی حلقے بعض شعبوں میں مسائل پیدا ہونے کا سبب اٹھارویں ترمیم کو قرار دیتے ہوئے اس پر نظرثانی کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب اپوزیشن لیڈرشپ اس صورتحال میں اٹھارویں ترمیم کو چھیڑنے کے عمل کو وفاق کے حوالے سے خطرناک قرار دیتے ہوئے اس سے باز رہنے کی بات کر رہی ہے۔
اپوزیشن کی اہم جماعتوں کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ اگر بعض مقتدر قوتوں کی آشیرباد سے اس ترمیم میں ترمیم یا نظرثانی کیلئے پیش رفت ہوئی تو پھر کوئی انہونی ہو سکتی ہے اور اس حوالے سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی ناکامی کے عمل کا دیا جا رہا ہے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعتاً اٹھارویں ترمیم پر نظرثانی وقت کی ضرورت ہے۔ ایک عام تاثر تو یہ بن رہا ہے کہ آج کی صورتحال میں اٹھارویں ترمیم پر نظرثانی کا عمل پینڈورا بکس کھولنے کے مترادف ہوگا کیونکہ اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی خودمختاری اور صوبوں اور وفاق کے درمیان وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں تبدیلی کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ ملک میں ایک نئی صورتحال پیدا کرنے کی منظم کوشش ہے اور ایسی کسی کوشش کا ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ ن نے بھی ایسی کسی حکومتی تجویز کی مخالفت کا واضح عندیہ دیا ہے۔
موجودہ صورتحال میں وسائل کی فراہمی کے عمل کا سوال ہے تو کورونا وائرس اور اس کے اثرات کی بنیاد پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے ایک سال کیلئے قرضوں کی ادائیگی موخر کرنے کے ساتھ اربوں ڈالر کی امداد کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال حکومت کسی مالیاتی بحران سے دوچار نہیں تو ایسی صورتحال میں اس کی جانب سے اٹھارویں ترمیم کا ایشو اٹھانا کسی بھی لحاظ سے اس کیلئے سود مند نہیں ہوگا لیکن پھر بھی اس امرکا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر کیوں اس ایشو پر بات ہو رہی ہے۔ ایسا چاہتا کون ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں تو ایک رائے بعض اعلیٰ سطحی مقتدر حلقوں میں یہ پائی جاتی ہے کہ صوبائی خودمختاری کو یقینی بنانے کیلئے صوبوں کی مالیاتی مضبوطی کے باوجود یہاں صوبے گورننس کے خواب کو حقیقت نہیں بنا سکے۔ جدید دور سے ہم آہنگ ہونے کیلئے سیاست یا حکومت سے زیادہ ریاست کو مضبوط بنانا ہوگا حقیقت یہ ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر یہ چنگاری موجود ہے اور ایسے امکانات نظر آ رہے ہیں کہ آنے والے حالات میں کسی نہ کسی موقع پر اس پر نظرثانی کرنا پڑے گی کیونکہ پاکستان ایک وفاق ہونے کے ناطے وسائل پر مرکزی حکومت کا اختیار ماننا پڑے گا کیونکہ اس ترمیم کے نتیجہ میں صوبوں کو مالی وسائل اور انتظامی معاملات میں خودمختار بنانے کا عمل صرف حکومت ہی نہیں بعض ریاستی اداروں کیلئے قابل قبول نظر نہیں آرہا۔
حکومت کی اتحادی بی این پی نے بھی اٹھارویں ترمیم چھیڑنے کے عمل کو خطرناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم جمہوری جماعت ہونے کے ناطے صوبوں کے اور زیادہ اختیارات کے حامی رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ با اختیار صوبے ہی عوام کے مسائل بہتر انداز میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ایک اور سوال اہم ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے نتیجہ میں مرکز سے اختیارات لے کر صوبوں کو دئیے گئے۔ انہیں بہت حد تک فیصلوں اور انتظامی مالیاتی امور پر خود مختار بنا دیا گیا لیکن صوبوں نے اپنے وسائل کی تقسیم کے عمل کو اپنے اضلاع تک وسیع تر نہیں کیا اور خصوصاً اب تک ضلعی حکومتوں کا موثر سسٹم نہ ہونے کے عمل کو بھی صوبوں کی نااہلی اور ناکامی قرار دیا جا رہا ہے لہٰذا اٹھارویں ترمیم کو نہ چھیڑنے کیلئے دباؤ بڑھانے والی سیاسی جماعتوں اور صوبوں کو اس حوالہ سے بھی جوابدہ ہونا پڑے گا کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر مضبوط بلدیاتی سسٹم کو کیونکر یقینی نہیں بنا پائیں اور شہری و دیہی ترقی کے یہ ادارے صوبوں کے رحم و کرم پر کیوں ہیں اور وہ کون سی وجوہات ہیں جس بنا پر مقامی حکومتوں کو اختیارات نہیں مل پائے۔
اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ ن کی قیادت شریف خاندان اور ان کے عزیزو اقارب کے گرد نیب کے شکنجہ اور ریفرنسز کی تیاری کو بھی اٹھارویں ترمیم کے حوالہ سے ان کی مشروط حمایت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ لیکن کیا ن لیگ ایسے کسی دباؤ میں آئے گی اس کا جواب تو ترمیم کو نظرثانی کیلئے پیش کرنے پر ہی پتہ چلے گا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی مشروط حمایت ان کے سیاسی کیس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکے گی جس کی اب وہ متحمل نہیں ہو سکتی۔