لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ کو عالمی ادارہ صحت کے خط میں جائز تحفظات ہیں۔ پی پی کی صوبائی حکومت عالمی ادارہ صحت کے خط پر غور کے بعد وہ نکات قومی سطح پر اٹھائے گی۔
چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زراری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ سندھ نے ہمیشہ حقائق اور استعداد کے مطابق قومی پالیسی بنانے پر زور دیا ہے۔
WHO letter to Sindh government raises valid concerns & suggestions. Will be discussed by Sindh govt before being taken up at national level. We’ve long called for national policy to be linked to facts & our own capacity. Unfortunately so far this hasn’t been national approach.
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) June 9, 2020
ٹویٹ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کوروناوائرس کے معاملے میں قومی سطح کی حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی ہے، اس حوالے سے سندھ حکومت قومی سطح کے اجلاس سے قبل مشاورت کرکے اپنے تحفظات کے اظہار کے ساتھ ساتھ تجاویز بھی دے گی۔
اس سے قبل لاک ڈاؤن نرم کرنے پر عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو خبردار کردیا اور کہا ہے کہ پاکستان لاک ڈاؤن نرم کرنے کی 6 میں سے کسی ایک شرط پر بھی پورا نہیں اترتا۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا کے بڑھتے مریض اور اموات، ڈبلیو ایچ او نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پاکستان میں کورونا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اموات پرخطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ روزانہ 50 ہزار ٹیسٹ اور کم ازکم 2 ہفتے مکمل لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کے نام خط لکھا جس میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کورونا کے حوالے سے ضابطہ کار (ایس او پیز) پر سختی سے عمل نہيں ہو رہا۔
پنجاب حکومت کو لکھے گئے خط میں عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صوبے میں کورونا کے روزانہ 50 ہزار ٹیسٹ ہونے چاہئیں اور کم از کم 2 ہفتے کا مکمل لاک ڈاؤن وقت کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونامریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھنا خطرے کی بات ہے،لاک ڈاؤن کے دوران ہی روزانہ ایک ہزار کیسز رپورٹ ہورہے تھے،لاک ڈاؤن ختم ہونے کےبعد روازنہ مریضوں کی تعداد 4 ہزار سے اوپر ہوگئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے پنجاب حکومت کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ پاکستان کو سخت فیصلے کرنا ہوں گے ، ہاٹ اسپاٹ کو جلد از جلد لاک ڈاؤن میں لانا ہوگا، صحت کا نظام بہتر کرنا ہوگا۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 24 فیصد ہے جو بہت زیادہ ہے ، لاک ڈاؤن میں نرمی سے پہلے اٹھانے کے لیے ضروری اقدامات پر بھی عمل نہیں کیا گيا ، ایس او پيز پر عمل کے لیے شعور اور آگاہی پھیلائی جائے ۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کے مجموعی مریضوں کے 33.7 فیصد صرف کراچی میں رپورٹ ہوئے۔
عالمی ادارہ صحت نے پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد کو خط میں تجویز کیا ہےکہ کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے دو ہفتے کا لاک ڈاؤن اور دو ہفتے نرمی کی پالیسی اپنائی جائے، ٹیسٹنگ کی صلاحیت روزانہ 50 ہزار تک لے جائی جائے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں کورونا کے کل مریضوں کا 33.7 فیصد کراچی ، 18.5 لاہور ، 5.3 پشاور ، اور پانچ اعشاریہ دو فیصد مریض کوئٹہ میں ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق حکومت نے یکم مئی کو لاک ڈاؤن میں جزوی نرمی کی، 22 مئی کو لاک ڈاؤن میں مکمل نرمی کی گئی جو کرونا کے پھیلاؤ کا باعث بنا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق لاک ڈاؤن نرم کرنے سے پہلے چھ بنیادی چيزوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، جہاں لاک ڈاؤن نرم کریں وہاں وبا پھیلنے کی رفتار قابو میں ہو، صحت کا نظام بوجھ اٹھانے کے قابل ہو، جو ہاٹ اسپاٹ ہوں ، وہاں صورتحال کنٹرول میں ہوا، اسکولوں ، دفاتر اور دیگر جگہوں پر حفاظتی انتظامات مناسب ہوں، باہر سے آنے والے نئے کیسز کو ڈیل کیا جاسکے اور ایس او پیز پر عمل کے لیے عوام میں آگاہی اور شعور پھیلا جائے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان نے لاک ڈاؤن میں نرمی سے پہلے ان چھ میں سے ایک بھی اقدام پر مکمل عمل نہیں کیا، لاک ڈاؤن کھولنے سے پہلے جو اقدامات کرنے تھے پاکستان نے ایک بھی مناسب طورپر نہیں کیا۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق مشتبہ مریضوں کو ڈھونڈنا ، ٹیسٹ کرنا ، آئسولیٹ کرنا اور انہیں قرنطینہ کرنا اور ان کے رابطوں میں آنے والوں کو ڈھونڈنے کا نظام پاکستان میں بہت کمزور ہے، وینٹی لیٹرز کی تعداد بھی انتہائی کم ہے، پاکستان کی آبادی اپنا طرز زندگی بدلنے پر آمادہ نظر نہيں آتی جیسا کہ سماجی فاصلہ، ہاتھ دھونا اور احتیاطی تدابیر۔