لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کو افغان مفاہمتی عمل، طالبان کے کردار، بارڈر مینجمنٹ اور پاک بھارت تناؤ کے تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان نے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے، سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھانے اور معاملات کا سیاسی حل نکالنے کے حوالہ سے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے، پاکستان کا شروع سے یہ کہنا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے استحکام سے مشروط ہے، مذکورہ ملاقات کو افغان امن عمل کے حوالہ سے مثبت پیش رفت کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔
آرمی چیف کے دورہ افغانستان سے قبل امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کی تھی، زلمے خلیل زاد سے ملاقات کے فوری بعد آرمی چیف کا دورہ کابل اس امر کا ثبوت ہے کہ کابل امن عمل کو آگے بڑھانے اور معاملات کو چلانے میں سنجیدہ ہے، اس حوالہ سے پاکستان کے کردار سے متعلق اس کا اطمینان سامنے آیا ہے، مسلح افواج کے سربراہ جنرل باجوہ اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات سے افغان معاملات کے سیاسی حل، طالبان امریکہ معاہدہ میں پیش رفت اور افغان انٹرا ڈائیلاگ کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے۔
جہاں تک افغان مفاہمتی عمل کا سوال ہے تو اس میں پاکستان کے مثبت کردار کو امریکا، اس کے اتحادی اور دنیا سراہتی نظر آ رہی ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے خود اپنے مفاد میں اس عمل کو آگے چلایا۔ افغان انتظامیہ نے بھارتی آشیرباد پر معاہدے پر اثرانداز ہونے کیلئے ممکنہ کوششیں کیں لیکن انہیں اس محاذ پر مایوسی اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا، افغان طالبان نے شدید تحفظات کے باوجود پاکستان کو عزت دی، اس کی بات سنی اور اسے احترام دیا، پاکستان نے طالبان پر ایک حد سے زیادہ نہ دباؤ بڑھایا اور نہ ہی پاکستان زیادہ دباؤ کی پوزیشن میں تھا، اب نئی صورتحال میں طالبان افغان محاذ پر مضبوط پوزیشن پر کھڑے ہیں، افغان انٹرا ڈائیلاگ کے عمل میں طالبان سے ایسی شرائط نہیں منوائی جا سکتیں جو خود طالبان کے کردار اور ان کی جدوجہد کے منافی ہوں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ طالبان نے غیر ملکی افواج کے خلاف تاریخ ساز جدوجہد کی، وہی امریکا جو طالبان سے نجات کیلئے یہاں آیا تھا بالآخر ان سے مذاکرات پر مجبور ہوا، افغانستان میں امن کے حوالہ سے پاکستان کے بھی کچھ تحفظات ہیں اور آرمی چیف کے دورہ کابل کو بھی اس حوالہ سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے۔
لداخ میں چینی افواج کے ہاتھوں پٹنے کے بعد اب بھارت پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے جس پر پاکستانی الرٹ اور پاکستانی افواج پرعزم ہیں۔ بھارت افغان سرزمین کو بھی ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرتا آیا ہے۔ خصوصاً پاکستان میں دہشت گردی کے ڈانڈے افغانستان سے جا ملتے ہیں لہٰذا افغانستان میں نئے انتظامی بندوبست میں افغان سرزمین سے دہشت گردی کی سرگرمیوں کا خاتمہ ناگزیر ہے، اس میں بنیادی کردار افغان فورسز اور سیاسی عناصر کو ادا کرنا ہے، اگر افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوتا ہے تو اس سے ہمسایہ ممالک بھی محفوظ ہوں گے۔