لاہور: (دنیا نیوز) ملک بھر میں پٹرول کی قلت برقرار ہے، شہری پٹرول کے حصول کے لئے خوار ہونے لگے۔ نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پمپس سے ایندھن غائب ہو گیا۔ سرکاری انتظام میں چلنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنی کے پمپس پر پٹرول دستیاب ہے تاہم وہاں لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ملک کے مختلف شہروں میں شہریوں کی ایک ہی دہائی ہے، پٹرول۔۔۔ پٹرول ۔۔ پٹرول جبکہ پٹرول نایاب ہونے پر لوگوں کو پٹرول نہ ملنے پر زیادہ تر سفر پیدل کرنا پڑ رہا ہے۔ موٹر سائیکل اور گاڑیوں والے سب ہی پریشان ہیں، پمپس پر لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
لاہور میں نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پمپس پر پٹرول غائب ہے۔ شہری پٹرول کی تلاش میں خوار ہونے لگے ہیں، جس پر انہوں نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پٹرول مہنگا ہو توقلت نہیں ہوتی،سستا ہوا تو کمپنیوں نے غائب کر دیا۔
کراچی میں اکثر پٹرول پمپ کھلے تو ہیں لیکن پٹرول دستیاب نہیں۔ جہاں پٹرول مل رہا ہے وہاں صارفین کا جم غفیر ہے۔ شہریوں کو مہنگا ہائی آکٹین ڈلوانے پر مجبورکیا جا رہاہے۔پشاور میں بھی لوگ پٹرول کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ پٹرول پمپس پرلمبی قطاریں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ اُدھر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نوٹس لینے کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔
شہریوں نے مطالبہ کیا ہے جن پٹرول پمپس مالکان اور کمپنیوں نے مصنوعی قلت پیدا کی ہے ان کے لائسنس منسوخ کئے جائیں۔
دریں اثناء ملک میں پٹرول بحران کی وجوہات دنیا نیوز حقائق سامنے لے آیا۔ اوگرا اور وزارت پٹرولیم بحران کا سبب بنے۔ ڈی جی آئل نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا عندیہ دیا تو کمپنیوں نے اپنا کام دکھا دیا۔
چھ اپریل کو وزارت پٹرولیم نے اوگرا کو خط لکھ کر تیل کمپنیوں کے پاس سٹاک نہ ہونے کا اعتراف کیا۔ دومئی کو پی ایس او نے انکشاف کیاتھاکہ تیل کی قیمتوں میں ممکنہ کمی کی وجہ سے کمپنیاں تین دن زیادہ کاذخیرہ نہیں رکھ رہیں۔ گندم کی کٹائی شروع ہونے کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں بھی نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے ۔
یکم جون کو ڈی جی آئل نے اوگرا کو خط میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ یکم جولائی سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ کمپنیاں فائدہ حاصل کرنے کے لیے تیل فراہمی کم کرسکتی ہیں ۔یہ خبر سامنےآتے ہی کمپنیوں نے اپنا کام دکھا دیا۔
دوجون کو اوگرا نے سیکرٹری پٹرولیم کو ا یک اور خط لکھ کر کئی علاقوں میں تیل کی قلت سے آگاہ کیا لیکن پانی سر سے گزر چکا تھا۔تین جون کواوگرا نے چھ آئل کمپنیوں کو تیل کی عدم فراہمی پر شوکاز نوٹس جاری کرکے خانہ پوری کی اور چار جون کوملک بھر میں تیل کا ذخیرہ تسلی بخش قرار دے دیا ،،لیکن عوام اب بھی پٹرول کے لیے خوار ہیں۔
دریں اثناء پشاور ہائیکورٹ میں پٹرول اور آٹا بحران کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے وفاقی وزیرپٹرولیم، ڈی جی نیب خیبرپختونخوا اور وفاقی سیکرٹری پٹرولیم کو کل طلب کرلیا۔
پشاور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ہر چیز پر نوٹس لیتا ہے لیکن آٹا پٹرول بحران پر خاموش ہے۔
جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیے کہ پٹرول کا بحران ہے لوگوں کو پٹرول نہیں مل رہا کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں، افسوس ہوتا ہے ایسے وزراء پر جو صرف میٹنگز کے لئے جاتے ہیں اور مراعات لیتے ہیں۔
نمائندہ اوگرا نے کہا کہ ہم نے کمیٹی بنائی ہے جو پمپس پٹرول نہیں دے رہے ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔
جسٹس قیصر رشید نے کہا کہ جب کسی معاملے کو دباتے ہیں تو حکومت اس کے لئے کمیٹی بنا دیتی ہے، کمیٹی کو چھوڑیں، اس کی بات مت کریں، نیب صرف اپنی مرضی کے کیسز میں دلچسپی لیتا ہے، چیئرمین نیب بھی ہر چیز پر نوٹس لیتے ہیں لیکن پٹرول اور آٹا بحران پر خاموش ہیں، عوام کے مفاد کے لئے بھی کوئی کام کرنا چاہیے، لیکن اس معاملے پر نیب سورہا ہے۔
جسٹس قیصر رشید نے سیکرٹری فوڈ سے استفسار کیا کہ آٹا بحران کا کیا ہوا؟۔ سیکرٹری فوڈ نے بتایا کہ پنجاب سے آٹا اور گندم کی سپلائی ہورہی ہے کچھ ہفتوں میں ریٹ نارمل پر آجائے گا۔ عدالت نے سیکرٹری فوڈ سے آٹا بحران پر تفصیلی رپورٹ آئندہ سماعت پر طلب کرلی۔