لاہور: (روزنامہ دنیا) مئی 2019 سے شروع ہونیوالے معاملے کا فیصلہ آ گیا۔ 11 صفحاتی فیصلہ پر درخواست گزار بھی خوش ہیں اور حکومت بھی اسے قبول کر رہی ہے، دونوں طرف خوشیاں منائی جا رہی ہیں،معمہ کیا ہے ؟ فیصلہ کسی کی ہار یا جیت قرار دیا جاسکتا ہے ؟۔
پروگرام‘‘ تھنک ٹینک ’’ کی میزبان سیدہ عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا کہ شہزاد اکبر احتساب الرحمان بننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ ناکام ہوگئے ہیں، حکومت اور ادارے ریفرنس دائر کرنے کا تاثر زائل نہیں کرسکے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تین فیصلوں میں جو ریمارکس دئیے وہ اصل مشکل ہیں، ان کے فیصلے درد سر ہیں۔ جج صاحب کی بیوی نے اپنی جائیداد کے بارے میں کلیئر کر دیا ہے، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کو شرمساری نہیں ہوگی، اصل شرمندگی حکومت اور اداروں کیلئے ہے۔ یہاں ملک میں بڑے بڑے واقعات ہوجاتے ہیں ان پر پردے ڈال د ئیے جاتے ہیں، ہمارے ادارے بہت کچھ کرتے ہیں، اتنے خود سر نہیں ہوتے کہ ان کو بتایا نہ جاسکے، کیا وزیر اعظم میں اتنی عقل نہیں تھی کہ اس ریفرنس کے کیا نتائج آئیں گے۔
روزنامہ دنیا کے ایگزیکٹو گروپ ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ اس کیس میں ہدف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نہیں تھیں، ہدف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تھے، بیوی اور بچے پھنس گئے ہیں اور جج صاحب سرخرو ہوگئے ہیں، فروغ نسیم او ر شہزاد اکبر تحریک انصاف کے چہرے نہیں، حکومت اور اداروں کیلئے شرمندگی ہوئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سرخرو ہوئے ہیں، منی ٹریل آگئی ہے۔
ماہر سیاسیات ڈاکٹر سید حسن عسکری نے کہا کہ ریفرنس ختم ہوگیا، اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جائیداد کی سکروٹنی ہوگی، ان کو جائیداد کے ثبوت دینے ہیں، فیصلہ حق میں آ گیا تو ٹھیک ہے، اگر خلاف آتا ہے تو ایف بی آر سپریم جوڈیشل کونسل کو بتائے گی، اس میں قانونی پیچیدگیاں بھی ہیں، یہ معاملہ اتنی جلدی اور آسانی سے حل نہیں ہونیوالا ہے، جج صاحب کا اصل معاملہ طے ہوگیا ہے، ججوں اور سیاستدانوں کا معاملہ مختلف ہے، حکومت نے جج صاحب کا معاملہ بھی سیاستدانوں کی طرح ٹریٹ کیا ہے۔
اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیوروچیف خاور گھمن نے کہا کہ ہماری تاریخ میں ایولیوشنری پراسس ہو رہا ہے تو اسے سراہنا چاہئے، ہماری عدلیہ آزاد ہے، فیصلہ دونوں پارٹیوں کیلئے ون ون ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کیلئے بہت اچھا ہوا ہے کہ ان کیلئے فیصلہ آگیا ہے، جائیداد کا معاملہ حل نہ ہوتا تو ایک تنازع ہی رہنا تھا، تفصیلی فیصلہ بعد میں آئے گا، ایسٹ ریکوری یونٹ کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔