لاہور: (دنیا نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں بارے کمیشن کی تشکیل اور رپورٹ پیش کرنے کے لئے 6 ہفتوں کی مہلت دے دی۔ چیف جسٹس نے حکومت میں غیر منتخب افراد کی شمولت پر سوالات اٹھا دئیے اور ریمارکس دئیے کہ شور مچا ہوا ہے کہ غیر منتخب لوگ حکومت چلا رہے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے درخواستوں پر سماعت کی۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری، اٹارنی جنرل، چیئر پرسن اوگرا اور سیکرٹری پٹرولیم پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل نے پٹرول بحران سے متعلق کابینہ کے میٹنگ منٹس پیش کئے۔
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ منٹس آف میٹنگ میں جہاں کابینہ لکھا ہونا چاہیے تھا وہاں ہر جگہ وزیر اعظم لکھا ہوا ہے، اتنی بڑی سطح پر اتنی بڑی غلطی کی امید نہیں تھی، میٹنگ منٹس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ کابینہ کی قانونی معاونت نہیں کی گئی۔
لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ جو عوامی نمائندہ نہیں، ان کی سوچ عوام کے مفاد کیلئے ہے نہ ہی وہ ریاست کی بہتری کیلئے کام کرتے ہیں، حکومت میں شامل غیر منتخب لوگوں کی سوچ صرف کمپنی کا مفاد ہے اور کسی ایک شخص کو خوش کرنا ہے، غیر منتخب افراد کہتے ہیں کہ پٹرول کی قیمتوں کے طریقہ کار میں تبدیلی کی وجہ سے بحران آیا۔ عوامی نمائندے کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قیمتیں کم ہوں یا زیادہ فائدہ کمپنیز کا ہے۔
سیکرٹری پٹرولیم نے پٹرول قلت کا ذمہ دار اوگرا کو ٹھہرایا۔ چیف جسٹس قاسم خان نے قرار دیا کہ حکومتی ادارے اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کریں گے تو کیا حکومت چل سکتی ہے ؟ بادی النظر میں وزارت پٹرولیم کو رشتہ دار چلا رہےہیں۔
عدالتی استفسار پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ 26 تاریخ کو قیمتیں بڑھانے سے متعلق اوگرا نے تجویز نہیں دی۔ وزارت پٹرولیم نے فون پر اوگرا سے بات کی۔ چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا یہ ملک مذاق سے چل رہا ہے ؟ اگر قیمت پہلے بڑھانی تھی تو ٹھوس وجہ چاہیے، رپورٹ کو دیکھ کر پنجابی محاورہ یاد آیا کہ آ بیل مجھے مار۔