نئی دہلی: (ویب ڈیسک) پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہونے، وزیراعظم عمران خان کی طرف سے شیخ حسینہ واجد کیساتھ ٹیلیفونک رابطے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کو اٹھانے پر بھارتی پریشانی بڑھنے لگی، مودی سرکار کو آنکھیں کھولنے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
تفصیلات کے مطابق چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے بنگلا دیشی ہم منصب شیخ حسینہ واجد کو ٹیلیفون کیا، جس میں سیلاب، مقبوضہ کشمیر، کورونا وائرس سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
گزشتہ روز ایک بنگلا دیشی معروف اخبار کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ واجد نے بھارتی ہائی کمشنر کی متعدد درخواستوں کے باوجود گزشتہ 4 ماہ سے ان سے ملاقات نہیں کی جو نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے اور قریبی تعلقات پاکستان اور چین کی جانب منتقل ہونے کا اشارہ دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ بیجنگ پاک چین اقتصادی راہداری( سی پیک) پر 65 ارب ڈالرز سے کی سرمایہ کاری کررہا ہے جبکہ حالیہ عرصے کے دوران چین کے بنگلا دیش کیساتھ تعلقات بڑھنے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سفارتی تعلقات میں اہم پیشرفت، تین سال بعد پاکستانی ہائی کمیشن ڈھاکا میں مکمل فعال
بھارتی خبر رساں ادارے این ڈی ٹی وی کے مطابق پاکستان اور بنگلا دیش کی وزیراعظم کے درمیان ٹیلیفونک رابطے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو اٹھانا بھارت کیلئے خطرناک صورتحال ہے۔
بھارتی تجزیہ کار اور کلکتہ سے تعلق رکھنے مقامی اخبار کے ایڈیٹر سوبر بھومک نے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بنگلا دیش کے وزرائے اعظم کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات اور سفارتی تعلقات کا بحال ہونا بھارت کیلئے مسائل پیدا کر سکتا ہے اور یہ پریشان کن ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحالی کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ بنگلا دیشی وزیراعظم ہاؤس میں پاکستان کی حامی آوازیں بلند ہو رہی ہیں جبکہ پاکستانی حمایت یافتہ ارب پتی بزنس مین سلمان فضل الرحمن کو مشیر برائے پرائیویٹ سیکٹر انڈسٹری اور انویسٹمنٹ مقرر کیا گیا ہے۔
بھارتی تجزیہ کار نے کہا کہ لداخ میں کرنل سمیت بیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد چین اور بھارت کے درمیان تعلقات میں شدید کشیدگی پائی جا رہی ہے اور یہ کم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا بنگلادیشی ہم منصب کو فون،برادرانہ تعلقات کی مضبوطی کیلئےعزم کا اظہار
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنگلا دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے آفس میں پاکستان کی حمایت میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور وہاں پر مسئلہ کشمیر کو اٹھایا جا رہا ہے۔ بنگلا دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔
این ڈی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ بنگلا دیشی حسینہ واجد کی پاکستانی وزیراعظم عمران خان کیساتھ بات چیت کے بعد بھارت کیساتھ تعلقات تاحال بحال نہیں ہوئے اور نہ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے نے مزید بتایا کہ بھارت کی طرف سے گزشتہ سال متنازع شہریت قانون منظور کرنے کے بعد بنگلا دیشی وزیر خارجہ عبد المومن نے اپنا دورہ بھارت منسوخ کر دیا تھا اور تاحال یہ دورہ نہ ہو سکا تاہم اس دوران عبد المؤمن نے رواں ماہ جولائی 2020ء کے آغاز میں ڈھاکا میں پاکستانی سفیر عمران احمد صدیقی سے ملاقات کی۔
ترک خیر رساں ادارے ’اناطولیہ‘ کے مطابق اس ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے سفارتکاروں کے درمیان کورونا وائرس کی صورتحال سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
اس سے قبل بھارتی اخبار دی ہندو نے بنگلہ دیش کے معروف اخبار بھوریر کاگوج کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2019 میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد تمام بھارتی منصوبے سست روی کا شکار ہیں جبکہ چینی انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کو ڈھاکا کی جانب سے زیادہ حمایت مل رہی ہے۔
اخبار کے ایڈیٹر شرمل دتہ نے مضمون میں کہا کہ بھارت کی تشویش کے باوجود بنگلا دیش نے سلہٹ میں ایئرپورٹ ٹرمینل بنانے کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو دیا، بھارتی ہائی کمشنر ریوا گنگولی داس چار ماہ سے بنگلا دیش کے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے لیے کوشش کررہے ہیں لیکن انہیں ملاقات کا وقت نہیں مل سکا، بنگلادیش نے کورونا وائرس کے لیے بھارتی امداد کے جواب میں بھارت کو سراہنے کا نوٹ بھی نہیں ارسال کیا۔
دی ہندو کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اس سے ڈھاکہ کا حالیہ جھکاؤ پاکستان اور چین کی جانب مڑتا نظر آرہا ہے اور اسی طرح کا اقدام ایران میں حال ہی میں نظر آیا تھا جس نے چاہ بہار بندرگاہ ریلوے منصوبے پر بھارت کے بغیر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جس پر دونوں ممالک نے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
بھوریر کاگوج کی رپورٹ میں بدھ کے روز وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی بنگلا دیشی ہم منصب کو کی جانے والی ایک غیر معمولی فون کال کا بھی ذکر کیا گیا۔
بنگلہ دیشی اخبار کا کہنا تھا کہ بیجنگ اربن تعمیراتی گروپ (بی یو سی جی) کو سلہٹ کے ایم اے جی عثمانیہ ایئرپورٹ میں ایک نئے ٹرمینل کی تعمیر کا کنٹریکٹ ملا ہے جو بھارت کے شمال مشرقی خطے سے ملتا ہے اور اسی وجہ سے اسے نئی دہلی کے لیے حساس علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
بنگلہ دیشی ہائی کمیشن کے ایک سفارتی ذرائع نے دی ہندو اخبار کو تصدیق کی کہ بھارتی سفیر نے شیخ حسینہ سے ملاقات کا مطالبہ کیا تھا لیکن ایسا ہوا نہیں تاہم نہ ہی ڈھاکہ میں بھارت کے ہائی کمیشن اور نہ ہی بھارتی وزارت خارجہ نے اخبار کے سوالات کا جواب دیا۔