اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے آصف علی زرداری کی جعلی اکاؤنٹس کیسز کے ذیلی مقدمے پارک لین ریفرنس کو خارج کر کے بری کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔ سابق صدر پر 10 اگست کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے طلب کرلیا گیا۔ نیب کو ویڈیو لنک انتظام بھی کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے پارک لین کمپنی ریفرنس کا محفوظ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے آصف زرداری کی جانب سے بریت، ریفرنس خارج کرنے اور عدالتی دائرہ اختیار کے خلاف دو درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا۔
فیصلے میں سابق صدر کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے پارک لین کمپنی ریفرنس کو نیب قانون کے مطابق قرار دیا گیا۔ احتساب عدالت کا آصف علی زرداری پر 10 اگست کو فرد جرم عائد کرنے کا حکم دیتے ہوئے ٹرائل شروع کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔
فیصلے سے قبل آصف زرداری کے وکیل نے بریت اور ریفرنس خارج کرنے کی درخواست واپس لے لی۔ نیب نے آصف زرداری کی بریت درخواست خارج کر کے فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کی۔ نیب ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے موقف اپنایا کہ تمام دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست واپس نہیں لی جا سکتی، ملزم تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے، ایک ماہ فرد جرم موخر کروا کے آج جواب الجواب پر درخواست واپس لے رہے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ پارک لین ریفرنس نیب قانون نہیں بلکہ مالیاتی قوانین کا کیس ہے۔ احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت آصف زرداری کی بریت درخواست پر حکم جاری کرے گی۔
خیال رہے پارک لین ریفرنس جعلی اکاؤنٹس کیسز میں سے ایک کرپشن کیس ہے جس میں آصف زرداری سمیت 25 شیئر ہولڈرز تھے۔ الزام ہے کہ اس کمپنی نے 2008 میں جعلی فرنٹ کمپنی پارتھینون کے نام پر نیشنل بینک سے ڈیڑھ، ڈیڑھ ارب روپے کے دو بار قرض لئے جسے بعد میں واپس نہیں کیا گیا اور قومی خزانے کو 3 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
نیب کا موقف ہے کہ آصف علی زرداری قرض لے کر معاف کرانے کے اس مقدمے میں بطور صدر اثرانداز ہوئے، انہوں نے نیشنل بینک سے اپنی جعلی کمپنی کو قرض دلوایا، کیس میں نیشنل بینک کے سابق صدور سمیت مختلف گواہان اپنے بیانات ریکارڈ کرا چکے ہیں۔