لاہور: (ویب ڈیسک) ریکوڈک سے متعلق پاکستان عالمی ٹربیونل کے عائد کردہ 5.8 ارب ڈالرز جرمانے کے فیصلے کو تبدیل کروانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان نے آسٹریلوی کمپنی کو کان کنی کی لیز دینے کے بعد اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، جس پر آسٹریلوی کمپنی نے ٹربیونل میں پاکستان سے جرمانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس پر پاکستان نے اب موقف اپنایا ہے کہ جرمانہ ادا کرنے سے پاکستان کی کورونا وبا کے خلاف جاری کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ بلوچستان میں واقع ریکوڈک کا علاقہ معدنیات بشمول سونے اور تانبے کے لیے جانا جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اسے ایک تذویراتی اثاثہ سمجھتی ہے۔
عالمی بینک کا بین الااقوامی سینٹر فار سیٹل منٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس پاکستان کی اس درخواست پر غور کر رہا ہے جس میں ریکوڈک منصوبے کی لیز پر عمل نہ کرنے کی اجازت دینے پر عائد جرمانے کو ختم کرنے کا کہا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے ٹیتھیان کاپر کمپنی کو ریکوڈک میں کان کنی کی لیز دی تھی۔ ٹیتھیان دراصل آسٹریلوی کمپنی بارک گولڈ کارپ اور چلی کی کمپنی انتوفاگسٹو کے درمیان 50، 50 فیصد کی شراکت داری ہے۔
غیر ملکی کمپنی کی معاہدے میں توسیع کی درخواست کو مسترد کرنے کے بعد بلوچستان حکومت نے اس علاقے میں کان کنی کے لیے ایک کمپنی قائم کی تھی۔ عالمی منڈی میں سونے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یہ تنازع ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ہے۔
پاکستان اور ٹیتھیان کے درمیان معاملے کو متبادل ذرائع سے حل کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی تھی لیکن ابھی تک ان مذاکرات کا مستقبل واضح نہیں ہو سکا۔
پاکستانی حکام کے مطابق ابھی تک فریقین کے درمیان اس سلسلے میں براہ راست رابطہ نہیں ہوا۔ ٹیتھیان کے بیان کے مطابق بھی اس سلسلے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اٹارنی جنرل کے دفتر میں موجود ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ٹیتھیان کے ساتھ عدالت کے باہر معاہدے کا امکان موجود ہے لیکن اس کے لیے اس معاملے کے حتمی فیصلے کا انتظار ہے جو شاید اگلے سال تک بھی نہ آ سکے۔
ریکوڈک کا منصوبہ وزیراعطم عمران خان کی حکومت کا امتحان قرار دیا جا رہا ہے۔ سفارتی ذرائع کے استعمال سے اس معاملے کو حل کر کے مزید بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
ٹیتھیان کی ویب سائٹ کے مطابق ریکوڈک منصوبہ 3.3 ارب ڈالرز کی لاگت سے تانبے اور سونے کی کان کنی کا منصوبہ تھا۔
کمپنی کے مطابق یہ بلوچستان میں کان کنی کے کئی اور منصوبوں کے لیے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
ٹیتھیان کے مطابق 1998 میں بلوچستان حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں حکومت نے اسے ان علاقے میں کھدائی کی اجازت دی تھی۔ سال 2011 میں ٹیتھیان کی ایک ذیلی کمپنی نے مائننگ کی درخواست دی تھی، جسے نومبر 2011 میں بلوچستان حکومت نے مسترد کر دیا تھا۔
اس حوالے سے اسلام آباد اور بلوچستان دونوں میں موجود حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت نے یہ معاہدہ اس لیے منسوخ کیا تھا کیونکہ یہ شفاف انداز میں نہیں ہوا تھا اور کمپنی کو بہت زیادہ رعایت دی گئی تھی جس سے حکومتی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی اور قومی مفاد کو نظر انداز کیا گیا۔
ٹیتھیان نے اس منصوبے پر 22 کروڑ ڈالرز خرچ کیے تھے جس کے بعد 2012 میں آسٹریلوی کمپنی نے ورلڈ بینک کو بطور ثالث اس معاملے میں شامل کیا تھا۔ عالمی بینک نے 2017 میں پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا تھا جس میں پاکستانی سپریم کورٹ کے ٹیتھیان کے خلاف دیے جانے والے فیصلے کو مسترد کیا گیا تھا۔
کمپنی نے ابتدائی طور پر پاکستان سے 8.5 ارب ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ٹریبونل نے ایک فارمولے کا استعمال کر کے اس منسوخ شدہ لیز پر 56 سال میں متوقع منافع کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان پر تقریباً چھ ارب ڈالرز کا جرمانہ کیا۔