اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے احمد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو ڈیتھ سیل سے نکال کر سرکاری ریسٹ ہاؤس منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔ زیر حراست افراد موبائل فون، انٹرنیٹ استعمال نہیں کر سکیں گے۔
اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ احمد عمر شیخ عام ملزم نہیں بلکہ دہشتگردوں کا ماسٹر مائنڈ ہے اور عوام کیلئے خطرہ ہے۔ اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ احمد عمر شیخ کا دہشتگردوں کیساتھ تعلق ثابت کریں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ احمد عمر 18 سال سے جیل میں ہے، دہشتگردی کے الزام پر کیا کارروائی ہوئی ؟ بد نیتی یہ تھی کہ بار بار حراست میں رکھنے کے احکامات جاری ہوئے، وفاق دکھا دے ان لوگوں کیخلاف اس کے پاس کیا مواد ہے ، کسی کو حراست میں رکھنے کا مطلب ہے نو ٹرائل۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کل تک آپکا اعتراض تھا کہ ہائی کورٹ نے وفاق کو نہیں سنا، آج دلائل سے لگ رہا ہے، نوٹس نہ کرنے والا اعتراض ختم ہوچکا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کسی اختیار کو استعمال کرنے کے لیے مواد بھی ہونا چاہیے، صوبائی حکومت کے پاس ملزمان کو حراست میں رکھنے کا مواد نہیں تھا، قتل کی ویڈیو میں بھی چہرہ واضح نہیں تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے درخواست کی کہ کیس میں آئندہ ہفتے تک حکم امتناع دیا جائے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکم امتناع کس بنیاد پر دیا جائے، بغیر شواہد کسی کو دہشتگرد قرار دینا غلط ہوگا۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ افواج پاکستان کی قربانیوں سے انکار نہیں لیکن ہم آئین کے پابند ہیں، احمد عمر اور دیگر زیر حراست افراد کو ملزم نہیں کہا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ احمد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو ڈیتھ سیل سے نکال کر دو دن تک عام بیرک میں رکھا جائے اور اس کے بعد سرکاری ریسٹ ہاؤس منتقل کیا جائے، سرکاری ریسٹ ہاؤس میں اہلخانہ بھی صبح 8 سے شام 5 بجے تک ساتھ رہ سکیں گے، دو دن میں مناسب ریسٹ ہاؤس کا بندوبست اور سکیورٹی اقدامات مکمل کئے جائیں۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرنے کیلئے مہلت دینے کی اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرلی۔