اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین سینیٹ کیخلاف دائر درخواست کو نقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین سینیٹ الیکشن سے متعلق سید یوسف رضا گیلانی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے متعلق محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کردیا ہے۔
عدالت نے تحریری فیصلے میں درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی ہے۔عدالت سے جاری ہونے والے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ توقع ہے منتخب نمائندے اور سیاسی قیادت عدالت کو ملوث کیے بغیر تنازعات حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
سماعت کے دوران سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور جاوید اقبال وینس عدالت پیش ہوئے،فاروق ایچ نائیک ایڈووکیٹ نے کہاکہ12 مارچ کو چیئرمین سینٹ الیکشن ہوئے جس میں صادق سنجرانی کو چیئرمین ڈیکلیئر کیا گیا،7ووٹوں کو مسترد کرکے یوسف رضا گیلانی کے ہارنے کا اعلان کردیا،پریزائیڈنگ آفیسر نے خانے کے اندر نام پر اسٹیمپ لگانےپر ووٹ مسترد کئے، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کس قانون کے تحت یہ الیکشن ہوئے ہیں ؟
جس پر وکیل نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 60 کے تحت یہ الیکشن ہوئے ہیں،اس موقع پر عدالتی ہدایت پرفاروق ایچ نائیک نے آئین کا آرٹیکل 60 پڑھااورکہاکہ صدر نے جی ڈی اے سےسیدمظفر حسین شاہ کو بطور پریذائڈنگ افسرمقرر کیا، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی اس پراسس میں شامل تھا ؟جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ الیکشن کمیشن سے کوئی اس پراسس میں شامل نہیں تھا،ووٹ کیسے مارک ہو گااس کا ذکر رولز میں موجود نہیں،چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی پروسیڈنگ کو استثنی حاصل ہے آرٹیکل 69 سے کیسے باہر جا سکتے ہیں؟،
فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ چئیرمین سینیٹ کا الیکشن پارلیمنٹ کی کاروائی نہیں ہے،ہمیں پریذائیڈنگ افسر نےکہاکہ باکس کے اندر جہاں چاہیں مہر لگائیں،ہم نےبیان حلفی دیاکہ پریزائیڈنگ کےمطابق باکس کے اندر نام پر مہر لگائیں یا سامنے،چیف جسٹس نے کہاکہ کیا یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل تھی؟وکیل نے کہاکہ یوسف رضا گیلانی کو الیکشن کے روز بھی اور آج بھی سینیٹ میں اکثریت حاصل تھی،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر یوسف رضا گیلانی کے پاس اکثریت ہے تو وہ صادق سنجرانی کو ہٹا سکتے ہیں،کیا آئین میں کوئی متبادل فورم نہیں ؟
فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ہمارے پاس کوئی متبادل فورم نہیں صرف عدالت فیصلہ کرسکتی ہے کہ ووٹ صحیح مسترد ہوئے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمنٹ بڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہے کیا اپنا مسئلہ حل نہیں کرسکتے،کیا عدالت کو پارلیمانی مسائل میں مداخلت کرنی چاہیے، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کا کیا طریقہ ہے؟،
یوسف رضا گیلانی کیس میں بھی سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی پروسیڈنگ سے متعلق آبزرو کیا تھا،فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ الیکشن کیلئے صدر نے پریذائڈنگ آفسیر مقرر کیا چیئرمین کا کوئی کردار نہیں تھا،کوئی پروسیجر موجود نہیں کہ کیسے اسٹیمپ لگانی ہے ،سیکرٹری سینٹ نے خود کہا ہمیں کہ خانے میں کسی جگہ بھی مہر لگا سکتے ہیں،پریزائڈنگ آفیسر کے فیصلے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے،ہم نے ابھی الیکشن کے پراسس کو چیلنج کیا ہے ،چیئرمین سینٹ کو صرف عدم اعتماد سے ہٹایا جا سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمنٹ پر غیر ضروری تنقید یہ عدالت نہیں کرتی ،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیاکہ کیا آپ کی سینٹ میں کمیٹی ہے جو اس معاملے کو دیکھ سکے، کیا ڈپٹی چیئرمین کے ووٹ میں بھی یہی ہوا تھا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ڈپٹی چیئرمین کے کیس میں صورتحال مختلف ہے، کمیٹی کے پاس اختیار نہیں کہ وہ چئیرمین کو ہٹا سکے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمنٹ قومی لیول پر ایشوز حل کرنے کا فورم ہے اپنا معاملہ کیا حل نہیں کر سکتے؟ عدالت پارلیمنٹ کی خود مختاری سے متعلق بہت زیادہ احتیاط سے کام لیتی ہے ،فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ جب رستے بند ہو جائیں تو رستہ آئین خود نکالتا ہے۔