اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ سابق دور حکومت اگر اتنا ہی سہانا تھا تو 20 ارب ڈالر خسارہ کیوں ہوا؟ ہمارے پاس تو ڈالر چھاپنے کی مشین نہیں تھی اس لیے آئی ایم ایف جانا پڑا۔ سابق حکومتوں نے جو کچھ کیا سب جانتا ہوں، بجٹ پر بلاوجہ تنقید نہ کی جائے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا لیکن ہم نے بجٹ میں ہم نے غریبوں کے ساتھ ملکی صنعتوں اور زرعی شعبے کا بھی خیال رکھا۔ پہلی بار ملک میں تمام بینک مکانات کی تعمیر کے لیے آسان قرضے فراہم کر رہے ہیں۔
شوکت ترین نے کہا کہ اب ہمارا فوکس ایکسپورٹ بڑھانے پر ہے۔ ہاؤسنگ انڈسٹری ٹیک آف کرے گی۔ ہاؤسنگ انڈسٹری چلنے سے 40 انڈسٹریز چلیں گی۔ عمران خان نے ہاؤسنگ انڈسٹریز پر توجہ دی، اپوزیشن انھیں کچھ تو کریڈٹ دے۔ احساس پروگرام دنیا میں چوتھے نمبر پر آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم گروتھ کی طرف جا رہے ہیں۔ غریب لوگ پہلے خواب دیکھتے تھے، اب نہیں تعبیر دینے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے 24 جون کو تفصیلی تقریر کروں گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم ایگری کلچر پر کام کر رہے ہیں۔ کسانوں کوقرض دیں گے توپروڈکشن بڑھے گی۔ ہم لوکل انڈسٹری کو پاؤں پر کھڑا کریں گے۔ ہم نے آئی ٹی کی ایکسپورٹ بھی بڑھانی ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ وزیراعظم کے اقدامات کی وجہ سے اکانومی بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ حکومت موجودہ بجٹ کو یہ سیاسی رنگ نہ دے اور نہ ہمیں جھوٹا نہ کہیں۔ کھانے پینے کی اشیا اس لئے مہنگی ہوئیں کیونکہ ہمارے پاس گندم چینی پوری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ 70 فیصد دالیں امپورٹ کرتے ہیں۔ پچھلے 20 سالوں میں ایگری کلچر میں کچھ نہیں کیا گیا تھا۔