پاکستان ہر طرح کی دہشت گرد کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے:شاہ محمود

Published On 06 August,2021 09:06 pm

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) وفاقی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود نے کہا ہے کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گرد کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے۔ خطے میں قیام امن کیلئے ایک پرامن اور مستحکم افغانستان ناگزیر ہے۔

آسیان علاقائی فورم کے اٹھائیسویں وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آسیان ریجنل فورم ہمیں باہمی دلچسپی کے سیاسی و سیکورٹی امور پر مشاورت اور تعمیری مذاکرات کیلئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے کیلئے تعاون کو فروغ دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

دہشت گردی کردی کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ گذشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی ہمارے معاشروں کیلئے سنگین خطرہ بن چکی ہے ،پاکستان،دہشت گردی کے عفریت سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جو اکثر اوقات سرحد پار معاونت کے باعث ہوئی۔ ہماری مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں نے ہزاروں کی تعداد میں اپنی جانوں کی قربانی دی جبکہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان ایک جامع نیشنل ایکشن پلان پر عمل پیرا ہے۔ ہم نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کئے ہیں اور فیٹف کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کی تشفی کیلئے جامع ریگولیٹری میکانزم وضع کیا ہے ۔ پاکستان ہر طرح کی دہشت گرد کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے،ہمیں کسی ملک کو یہ اجازت ہرگز نہیں دینی چاہیے کہ وہ سیاسی مقاصد کیلئے پوری قوم یا معاشروں پر دہشت گردی کے حوالے سے الزام تراشی کرے۔ ہمیں غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ اور متنازعہ علاقوں کے مکینوں پر ریاستی دہشتگردی کی مذمت کرنی چاہیے اور ان کے ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔

افغانستان کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے میں قیام امن کیلئے ایک پرامن اور مستحکم افغانستان ناگزیر ہے،افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ پاکستان، افغان قیادت میں افغانوں کو قابلِ قبول جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی حل کا حمایتی ہے۔ ہمیں ان سپائلرز پر نظر رکھنا ہو گی جو افغانستان میں قیام امن کی کاوشوں کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ عالمی برادری ماضی کی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے، کشیدگی کے خاتمے کے بعد افغانستان کی تعمیر نو اور تعمیر و ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرے جبکہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کو امن مذاکرات کا حصہ بنایا جانا ضروری ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ جنوب مشرقی ایشیا اور علاقائی تناظر میں پاکستان باہمی تعاون کے فروغ کیلئے آسیان کی مرکزیت کی اصولی حمایت جاری رکھے گا۔پاکستان، اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ متعلقہ فریقین کے ساتھ باہمی صلاح اور مشاورت کے ساتھ جنوبی بحیرہ چین میں امن و امان کو یقینی بنایا جائے،ہم اس حوالے سے چین اور آسیان کے اشتراک سے کوڈ آف کنڈکٹ کی تشکیل کی حمایت کرتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ پاکستان ملائشیا کے ساتھ مل کر آسیان علاقائی فورم کے چوبیسویں دفاعی اداروں /یونیورسٹیوں کے سربراہان، اجلاس کی میزبانی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ کورونا عالمی وبا کی وجہ سے دنیا صحت عامہ اور معیشت کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہے،اس عالمی وبا کا ماورائے جغرافیائی حدود ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ آسیان ریجنل فورم اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کی کثیر الجہتی روح کو بروئے کار لایا جائے۔ ہمیں اپنے وسائل کو مجتمع کر کے ایسی ویکسین تیار کرنی چاہیے جو ایک “گلوبل پبلک گڈ” کے طور پر سب کو دستیاب ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس وبا سے موثر انداز میں نمٹنے کیلئے سمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی کو اختیار کیا جو انسانی جانوں کا تحفظ، معاش اور معیشت کے تحفظ جیسے تین اہم پہلوؤں پر مشتمل ہے جبکہ احساس ایمرجنسی پروگرام کے تحت 200 ارب سے زائد رقم معاشی طور پر کمزور 15 ملین خاندانوں میں تقسیم کی گئی۔ ہم نے ویکسین لگانے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے، دسمبر 2021ء تک 70 ملین افراد کو ویکسین لگائی جائے گی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ وبائی بحران سے نمٹنے اور دوبارہ بہتر تعمیر کے ہدف کے حصول کیلئے ہمیں ویکسین کی یکساں فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلاموفوبیا کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے،اسے کم و بیش دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری کیلئے استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیئے،ہمیں اجتماعی طور پر دنیا بھر میں بالخصوص ہمارے اپنے خطے میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی اور فاشسٹ رحجانات کے احیائ کی مذمت کرنی چاہیے ۔ لوگوں کی خوشحالی، اور سماجی ترقی کیلئے دیرینہ تنازعات کو پرامن طریقے حل کیا جائے،ہم بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازعہ علاقوں میں جغرافیائی تبدیلیوں کے اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ یکطرفہ اقدام، خطے میں تعاون اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنے کی ہماری کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ہم اس حوالے سے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کو ضروری سمجھتے ہیں ۔خطے میں امن و استحکام کیلئے یہی واحد راستہ ہے۔
 

Advertisement