’دہشتگردی ترک،آئین پاکستان کو تسلیم کریں تو ٹی ٹی پی کو معافی دینے کیلئے تیار ہیں‘

Published On 15 September,2021 11:19 pm

اسلام آباد: (اے پی پی) وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگ دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے کا وعدہ کریں اور آئین پاکستان کو تسلیم کریں تو حکومت اراکین کو معاف کرنے کیلئے تیار ہو سکتی ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری کردہ ویڈیو میں وفاقی وزیر خارجہ نے برطانوی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کو تشویش تھی کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں کو افغان طالبان کے قبضے کے بعد جیلوں سے رہا کیا جارہا ہے۔ اگر افغان حکومت اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکتی ہے اور ٹی ٹی پی سے بات کرے اور اگر ٹی ٹی پی قانون اپنے ہاتھ میں نہ لے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو، حکومت اور آئین پاکستان کی رٹ کے سامنے ہتھیار ڈالے تو ہم یہاں تک ان کو معافی کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک وہ نہیں آتے اور پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیاں ختم نہیں ہوتیں اس وقت تک ہمیں تشویش ہے۔ اگر وہ رہائی کے بعد یہاں ہمارے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں تو معصوم لوگوں کی جانوں پر اثر پڑے گا اور ہم ایسا نہیں چاہتے ہیں۔ پاکستان کو افغان طالبان کی جانب سے زبانی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ افغانستان سے پاکستان کے اندر کسی گروپ کو دہشت گردی پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے اور پاکستان اس حوالے سے نظر رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئی طالبان قیادت کا رویہ 1990ء کی دہائی کے مقابلے میں مختلف ہے کیونکہ کابل میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو برداشت کیا گیا۔ اشرف غنی کو ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان نے مسلسل نشاندہی کی لیکن انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا اب دیکھنا ہے کہ افغان طالبان اپنی یقین دہانیوں پر کام کرتے ہیں یا نہیں۔ پاکستان کی سرزمین میں افغانستان سے آنے والے افراد کے لیے کوئی مہاجر کیمپ یا دوبارہ آباد کرنے کی کوئی سہولت نہیں دی جا رہی ہے۔ پاکستان ان افراد کے انخلا میں سہولت فراہم کرے گا جن کے پاس مصدقہ دستاویزات ہیں۔ افغانستان سے ملحق پاکستانی سرحد پر کوئی دباؤ نہیں ہے کیونکہ افغانستان سے کسی کو بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے اور اب ملک میں امن و استحکام آگیا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری اپنی مجبوریاں ہیں کیونکہ ہم کئی دہائیوں سے 30 لاکھ سے زائد مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں جو تقریباً 40 لاکھ بن جاتے ہیں اور ہم بغیر کسی بین الاقوامی امداد کے ان سے تعاون کر رہے ہیں اور اب مزید مہاجرین کی میزبانی برداشت کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔
 

Advertisement