اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے موجودہ حملوں سے زیادہ پریشان نہیں، ہماری فوج اور ایجنسیز ان سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے ترک میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، جس کی مکمل تفصیلی ویڈیو میزبان کی طرف سے جاری کر دی گئی ہے۔
انٹرویو کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج منظم اور تجربہ کار ہے، 40دنوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا تاہم ہم اس سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں، پاکستان کو امریکی ڈرون حملو ں سے ہونیوالے نقصان کا رد عمل برداشت کرنا پڑا، کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں سے پریشان نہیں ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے کچھ گروپوں سے امن کیلئے بات چیت کرنا چاہتے ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کو غیرمسلح کرنے کیلئے مذاکر ات ہوسکتے ہیں۔ مذاکرات میں افغان طالبان ثالث کاکردارادا کر سکتے ہیں، ہم بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مضحکہ خیز ہے کہ اگر امریکی پالیسیوں پر تنقید کی جائے تو امریکا مخالف گردانے جائیں گے، ہمیں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھا ناپڑا، اجتماعی نقصان کی وجہ سے افغانستان میں امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا، افغانستان کے خیر خواہ ہونے کی بدولت ہم چاہتے ہیں کہ وہاں استحکام ہو اور تمام فریقین پر مشتمل حکومت ہو، تاریخ شاہد ہے کہ افغانوں کو کسی کے زیر تسلط نہیں لایا جا سکتا، انخلا کے وقت کابل ائیر پورٹ پر پیدا ہونیوالی صورتحال کی وجہ سے امریکی صدر جوزف بائیڈن پر تنقید ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی کے کچھ گروپوں کیساتھ مذاکرات ہورہے ہیں: وزیراعظم عمران خان
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک وقت تھا جب ہم افغانستان میں خونریزی کی توقع کر رہے تھے کیونکہ روسیوں کے جانے کے بعد وہاں صورتِ حال خراب ہوئی تھی۔ 1979ء میں افغانستان میں لاکھوں افغان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ جس کے نتیجہ میں طالبان سامنے آئے۔ حال ہی میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے کابل سے انخلاء پر ہم خوفزدہ تھے کہ کابل پر قبضہ کرتے وقت وہاں خون ریزی ہوسکتی ہے مگر غیر متوقع طور پر اختیارات کا بہت پر امن انتقال ہوا، اب افغانستان میں انسانی بحران کا مسئلہ ہے کیونکہ افغان حکومت 70 تا 75 فیصد بجٹ کیلئے بیرونی امداد پر انحصار کرتی ہے، اب لوگوں کو خدشہ ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد بیرونی امداد ختم ہو جائے گی جس سے انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوری طور پراگر افغانستان کو امداد فراہم نہیں کی جاتی تو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہاں افراتفری پیدا ہوگی اور انسانی بحران جنم لے گا۔ وزیر اعظم نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی مدد کی جائے۔
بین الاقوامی برادری اور پاکستان کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے سوال پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم افغانستان کے تمام ہمسایوں سے مشاورت کریں گے کہ کب طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے کیونکہ اگر پاکستان تنہا طالبان کو تسلیم کر بھی لے تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑنا، ہونا تو یہ چاہیے کہ امریکہ، یورپ، چین اور روس بھی ان کی حکومت کو تسلیم کریں تاہم تمام ہمسایہ ممالک مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دے سکتے ہیں کہ کب طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے تو پاکستان سب کی مشاورت سے ایسا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کیلئے یہ ایک مشکل صورتِ حال نہیں ہے کیونکہ جب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو اس وقت تک افغان حکومت کے بیرونِ ملک منجمند اثاثے جاری نہیں ہوسکیں گے جو سب سے بڑا سوال ہے۔
امریکا انہیں کب تسلیم کرتا ہے اور کیا امریکا طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے گا کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ جلد یا بدیر امریکا کو ایسا کو کرنا پڑے گا۔ اس وقت سینیٹ، میڈیا اور پورا امریکا تذبذب میں ہے کیونکہ 20 سال بعد طالبان کی حکومت کے آنے سے امریکی شدید حیرت کا شکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ قربانی کے بکرے تلاش کرنے میں لگے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر جو بائیڈن کونشانہ بنانا نا انصافی ہے کیونکہ وہ اس کے سوا کیا کرسکتے تھے۔ انخلاء کی تاریخ جب بھی ہوتی اور اگر اس تاریخ سے دو ہفتے قبل افغان فوج ہتھیار ڈال دیتی اور افغان صدر ملک سے فرار ہو جاتے تو تب بھی یہی کچھ ہونا تھا جو صدر بائیڈن اور عالمی برادری کیلئے بھی حیران کن ہے۔ امریکی صدر کو نشانہ بنانا ناانصافی ہے اور وہ اپنی حیرت چھپانے کیلئے قربانی کے بکرے تلاش کر رہے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ وہ پاکستان کے حوالہ سے منطقی ذہنیت سے نہیں سوچ رہے۔
یہ بھی پڑھیں: کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات: وزیراعظم کا بڑا انکشاف
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اس وقت سوال یہ ہے کہ آگے کیسے بڑھا جائے، اگر امریکا افغانستان کے اثاثوں کو غیر منجمند نہیں کرتا اور اس کے نتیجہ میں افغان حکومت گِر جاتی ہے تو افراتفری پھیل سکتی ہے۔ جس سے سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کا ہوگا۔ اقوامِ متحدہ کے ایک اندازہ کے مطابق آئندہ سال تک افغانستان میں 95 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ اس لئے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہوگا اور عالمی برادری کو جلد یا بدیر افغان عوام کے بارے میں سوچنا ہوگا، جب تک ایسا نہیں ہوتا افغان آبادی کیلئے روز بروز بحران گہرا ہوتا رہے گا۔
قربانی کے بکروں کی تلاش، امریکی کانگریس کے اجلاسوں میں امریکی سینیٹروں اور قانون سازوں کے امریکی فوج کی اعلی کمان سے سوالات، بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اس حوالہ سے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا اور پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کی تجاویز پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم جیسے لوگ جو افغانستان کی تاریخ سے آگاہ ہیں اور افغانستان کی تاریخ کا پاکستان کی تاریخ سے قریبی تعلق ہے۔ پشتونوں کی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی تقریباً آدھی آبادی پشتون ہے لیکن اس سے دُگنا زیادہ پشتون پاکستان میں آباد ہیں اور افغان سرحد کے دونوں اطراف پشتون قبیلے آباد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ تاریخ سے واقف ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ افغان مسئلہ جنگ سے حل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہاں کی عوام کبھی بھی بیرونی طاقتوں کا تسلط تسلیم نہیں کرتی، وہ غیر ملکیوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور خاص طور پر غیر مسلم غیر ملکیوں کے خلاف۔ اگر کبھی پشتون قبائل آپس میں لڑ رہے ہوں اور جیسے ہی کوئی غیر ملکی آئے تو وہ متحد ہوجاتے ہیں۔ پشتونوں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ بدلہ لیتے ہیں اگر کوئی ان کے کسی عزیز کو قتل کرتا ہے تو وہ اس کا بدلہ لازمی لیتے ہیں اور بدلہ لینے کیلئے وہ مسلح افراد کا ساتھ دیں گے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ یہی کچھ سرحد کے اس طرف ہواجب ہم نے امریکا کا اتحادی ہونے کا فیصلہ کیا۔ طالبان پشتون تھے تو پاکستان میں مقیم پشتون برادری کی طالبان کے ساتھ ہمدردیاں ان کے مذہبی نظریات کی وجہ سے نہیں تھیں بلکہ ان کی پشتون قومیت کی وجہ سے تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ہم نے پاکستانی طالبان دیکھے، کیونکہ انہوں نے ہمیں امریکیوں کا ساتھی تصور کر لیا اور ہم پر حملے کرنے شروع کر دیئے جو بعد ازاں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کہلائے یعنی پاکستانی طالبان۔ سرحد کی دوسری جانب بھی یہی کچھ ہوا، امریکا کی جانب سے جتنے زیادہ فضائی یا ڈرون حملے ہوئے، رات کی تاریکی میں حملے کئے گئے جس سے افغان عوام نے اتنی ہی بے بسی محسوس کی اور بہت زیادہ لوگ مارے گئے۔ جس کے نتیجہ میں مسلح افراد کی تعداد بڑھتی گئی اور طالبان کی تحریک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زور پکڑتی گئی۔ 2008ء میں امریکا کے دورہ کے دوران میں نے تھنک ٹینکس سے خطاب کیا۔
یہ بھی پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی میں کچھ لوگ پاکستان کیساتھ وفا کاعہد نبھانا چاہتے ہیں: فواد چودھری
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں جوبائیڈن سے ملا جو اس وقت سینیٹر تھے اور جان کیری سے بھی ملاقات کی تھی۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی مگر مجھے احساس ہوا کہ انہیں کچھ خبر ہی نہ تھی اور امریکی عوام افغانستان کی صورتِ حال کے بارے میں مکمل طور پر بے خبر تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے وہاں ایک جمہوری حکومت قائم کردی ہے۔ انہوں نے افغان عورتوں کو آزادی دلا دی ہے، امریکا میں لوگوں کا یہ تصور تھا۔ افغانستان اصل میں کیسا ہے جو ان کے تصور میں بھی نہیں تھا، جب اچانک یہ سب کچھ ہوا تو ان سب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ جس کا رد عمل آپ نے سینیٹ میں دیکھا ہے۔ وہ جس قسم کے سوالات کررہے تھے اس سے پتہ لگتا ہے کہ انہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ افغانستان میں کیا ہو رہا تھا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ یقین کریں پاکستان میں جن لوگوں کو افغانستان کی تاریخ سے آگہی تھی اور وہ جانتے تھے۔ 2010ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی صدر اوباما سے ملاقات کیلئے امریکا گئے تو انہوں نے بارک اوباما کو سمجھایا کہ افغانستان میں جنگی حل نہیں نکلے گااور ان کو بتایا کہ جیسے ہی آپ افغانستان سے نکلیں گے، افغان آرمی ہتھیار ڈال دے گی۔ جنرل کیانی نے انہیں بتایا کہ آپ وہاں گند چھوڑ کرنکل جائیں گے اور ہمیں پاکستان میں نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ انہیں اس کی سمجھ ہی نہیں تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مجھ پر میرے موقف کی وجہ سے طالبان خان ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے جو ان کا بدترین تکبر تھا۔ جارج بش کی حکومت میں جارحانہ رویہ کے تحت کہا گیا کہ آیا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف۔ نائن الیون کے بعد یہ حیران کن مضحکہ خیز بیان سامنے آیا کہ اگر آپ ہماری پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتے تو آپ ہمارے مخالف ہیں، اگر میں افغانستان میں جنگی حل سے متفق نہیں تھا تو کیا میں طالبان کا حامی تھا؟ اسی لئے وہ صدمے کی کیفیت میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی تنازعہ کے فوجی حل کا مخالف ہوں۔ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ دنیا کے مسائل کا حل فوجی ذرائع ہیں۔ میں عراق جنگ کا بھی مخالف تھا کیونکہ جو کچھ عراق میں ہوا، اگر اس کا بامقصد تجزیہ کیا جائے تو میں نے ہمیشہ فوجی ذرائع کے استعمال پر اپنے ملک پر بھی اعتراض کیا ہے، میں مشرقی پاکستان کے مسئلہ کے فوجی حل پر بھی یقین نہیں رکھتا۔ افغان مسئلہ کو میں امریکا میں موجود کسی بھی شخص سے زیادہ بہتر سمجھتا تھا اور اسی وجہ سے ہی میں نے فوجی حل کی مخالفت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کیسی عجیب بات ہے کہ اگر آپ امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں تو آپ امریکا مخالف ہیں۔ اگر میرے نقطہ نظر سے اتفاق کیا جاتا تو امریکا کو اس نتیجہ پر پہنچنے کیلئے 2.5 ہزار ارب ڈالر خرچ نہ کرنے پڑتے۔ میں نے اس جنگ کا حصہ بننے پر پاکستان پر بھی اعتراض کیا تھا کیونکہ ہمارا نائن الیون سے کوئی لینا دینا نہ تھا، القاعدہ افغانستان میں تھی۔ پاکستان میں کوئی مسلح طالبان نہ تھے۔ پاکستان کا اس جنگ سے کیا تعلق تھا، جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں 80 ہزار افراد اپنی زندگی سے محروم ہو گئے، ہماری پوری قبائلی پٹی تباہ ہوگئی، 35لاکھ افراد بے گھر ہوئے، ہمیں دنیا کی خطرناک ترین جگہ قرار دیا جاتا رہا اور ہماری معیشت گراوٹ کا شکار ہوئی۔ ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی جنگ کی وجہ سے 2008 میں ہماری کرنسی اپنی آدھی قیمت کھو بیٹھی۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کا اتحادی بننے کی وجہ سے دی جانے والی قربانیوں پر ہمیں سراہا جاتا لیکن اپنی غلطیوں کی پردہ پوشی کیلئے ہمیں قربانی کا بکرا بنا کر پیش کرنا، ہمارے لئے سب سے تکلیف دہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب بھی یہ غصہ ختم ہو گا اور امریکا کے اندر منطق زور پکڑے گی اور وہ اس جانب منطقی طور پر سوچنا شروع کریں گے کہ پاکستان اس سب کیلئے کیسے ذمہ دار ہو سکتا ہے، یہ کیسے ہوا کہ بہترین اسلحہ سے لیس تین لاکھ افغان فوج نے کیسے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیئے، افغان دنیا کی بہادر ترین اقوام میں سے ایک ہیں۔ وہ کیوں نہیں لڑے یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں تھا۔ یہ سب کیسے ہوا کہ افغان فوج نے ہلکے اسلحہ سے لیس 60 ، ستر ہزار پر مشتمل ملیشیا کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ پاکستان کیسے ان کی مدد کر رہاتھا؟ طالبان کابل کی سڑکوں پر جوتوں کے بغیر موٹر سائیکل چلاتے نظر آئے، اس کا موازنہ افغان آرمی سے کرکے دیکھیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آپ تجزیہ کریں کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس کا کوئی بھی ذمہ دار ہوسکتا ہے مگر پاکستان نہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ افغانوں نے ہمیشہ بیرونیِ قبضہ کے خلاف مزاحمت کی ہے، وہ آزادی پسند ذہنیت کے حامل لوگ ہیں، وہ بنیادی طور پر ایک آزادی پسند قوم ہیں، ان کی ثقافت بہت زیادہ جمہوری ہے اور وہ بیرونی تسلط کو کبھی تسلیم نہیں کرتے۔ دوسری بات رات کے اندھیرے میں حملے، فضا سے بمباری، دیہاتوں پر بمباری کرکے گوریلا جنگ نہیں جیت سکتے ، اجتماعی نقصان کی وجہ سے امریکا کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے، جس سے مسلح جدوجہد بڑھی اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہو گئے۔ طالبان کی تحریک دیہی علاقوں میں شہرت پاتی گئی یہی وجہ ہے کہ وہ کامیاب ہوگئے اور ایسا پاکستان کی وجہ سے نہیں ہوا۔ اب جب طالبان حکومت میں ہیں اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر امریکہ کے اجلت میں انخلاء کی وجہ سے پیدا شدہ صورتِ حال کا سامنا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں اپنے مضمون کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ عالمی برادری افغانستان کے بڑے نسلی گروہوں کو افغان حکومت کا حصہ دیکھنا چاہے گی، مگرمیری کابل میں سینئر افغان رہنمائوں سے بات ہوئی ہے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ کسی صورت حامد کرزئی جیسے لوگوں کو شامل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے حتی کہ عبداللہ عبداللہ کو بھی اوران لوگوں کو جو گزشتہ حکومت کا حصہ تھے جس کے دوران طالبان کو بہت سے لوگوں، خاندانوں وغیرہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اگر طالبان ایسی شمولیتی حکومت سے انکاری ہوجاتے ہیں جس کیلئے پاکستان اور بین الاقوامی برادری دبائو ڈال رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے نقطہ نظر سے جب ہم شمولیتی حکومت کی بات کرتے ہیں تو ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں مختلف نسلی گروہ آباد ہیں۔ پشتون آبادی پچاس فیصد کے قریب ہے ، پھر وہاں تاجک ایک بہت بڑی اقلیت ہیں، ازبک،ہزارہ ہیں اور دیگر چھوٹی اقلیتیں بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک شمولیتی حکومت کا مطلب ہے کہ ایک مستحکم افغانستان، وہ لوگ جو افغان عوام کی فلاح میں دلچسپی رکھتے ہیں، افغان عوام 40 سال سے تنازعات سے گزر رہے ہیں، جو بھی ان کا بھلا چاہتا ہے وہ ایک مستحکم افغانستان کا خواہشمند ہے۔ مستحکم افغانستان کا مطلب ہے کہ جس میں سبھی کو نمائندگی ملے، مگر طالبان کہتے ہیں کہ عمران خان ایک شمولیتی حکومت کیلئے دبائو ڈال کر افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔
اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پہلی بات افغانستان کے خیرخواہ کی حیثیت سے ہم چاہیں گے کہ وہ مستحکم ہوں اور وہاں ایک شمولیتی حکومت قائم ہو۔ اب وہ شمولیتی حکومت کیسی ہونی چاہیے اس بارے میں طالبان پر مسلط نہیں کیا جاناچاہیے کیونکہ یہ مداخلت ہوگی، اگر آپ انہیں کہیں کہ فلاں فلاں کولازما حکومت میں رکھیں تویہ ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہوگی اور میں تصور کر سکتا ہوں کہ وہ اس پر مزاحمت کریں گے،کیونکہ افغان آزاد ذہنیت کے حامل لوگ ہیں، یہ تصور کہ ان کو باہر سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے غلط ہے، چاہے امریکا ہو یا پاکستان یہ ایک خیال تو ہو سکتا ہے لیکن ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ انکی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ ہم ایک خیر خواہ کے طور پر یہ تجویز تو دے سکتے ہیں کہ ایک شمولیتی حکومت ہونی چاہیے جس سے وہ اتفاق کرتے ہیں، لیکن انہیں یہ ہدایات دی جائیں کہ اے، بی یا سی کو حکومت میں شامل کریں تو یہ مداخلت ہو گی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان ایک تباہ حال معاشرہ ہے، سیاسی طور پر بھی وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، خاص طور پر جب طالبان کے اندر مختلف گروہ موجود ہیں، کابل میں وہ حکومت میں ہیں، وہ آپس میں بھی بات چیت نہیں کر سکتے، ان کا موقف کیا ہے اور وہ افغانستان کو کہاں لیکر جانا چاہتے ہیں؟۔
بین الاقوامی برادری تک افغان حکومت کی آواز موثر انداز میں پہنچانے اور ان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تاثر یہ ہے کہ طالبان کی لگامیں پاکستان کے قابو میں ہیں، وہ طالبان کو کنٹرول کرتے ہیں، لوگ افغانوں کے کردار سے واقف نہیں ہیں۔ آپ افغانستان کے لوگوں کوکنٹرول نہیں کر سکتے اور تاریخ ہماری رہنمائی کرتی ہے، افغانستان کی تاریخ دیکھیں اور سارے ہندوستان کی تاریخ بھی۔ ایک جنگ جیت کر سارے ہندوستان کو کنٹرول کیا جاتا رہا ہے لیکن افغانستان میں کبھی بھی ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ وہاں ایک غیر مرتکزجمہوری نظام رائج ہے، وہ بہت جمہوری لوگ ہیں، وہاں کوئی جاگیردارانہ نظام نہیں تھا جیسا کہ ہندوستان میں تھا، اسی لئے ہندوستان کو کنٹرول کرنا آسان تھا۔ انہوں نے کہا کہ پشتون قبائل افغانستان کی آبادی کا نصف ہیں اوردوگنا تعداد میں پشتون پاکستان میں ہیں۔ انہوں نے 80 سال تک برطانیہ کے خلاف مزاحمت کی، برطانیہ نے سارے ہندوستان کا کنٹرول حاصل کیا مگر پشتون علاقوں اور قبائلی علاقوں میںبرطانیہ کو 80 سال تک لگاتار مزاحمت کا سامنا رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کو باہر سے کبھی بھی کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ افغان عوام اس وقت بہت مشکل حالات میں ہیں کیونکہ جب کوئی بیس سال کی لڑائی، خانہ جنگی کے بعد حکومت حاصل کرتا ہے تو اس کے لئے مشکلات ہوتی ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ وزیر اعظم نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ چالیس سال کے بعدافغانستان کے لوگوں کوامن و استحکام میسر ہو، تاہم مجھے علم نہیں کہ آیا ایسا ہو گا بھی یا نہیں۔ ہم امریکا سے بات چیت کر رہے ہیں، ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ امریکی ہم منصبوں سے رابطے میں ہیں، ہمارے وزیرخارجہ ان کے وزیر خارجہ کیساتھ رابطے میں ہیں۔
امریکی صدر سے رابطہ کے حوالہ سے وزیر اعظم نے کہا کہ صدور اور ریاست کے سربراہان کی بات چیت رسمی ہی ہوتی ہے کیونکہ اصل کام تو ان کے نیچے کام کرنے والے لوگ کرتے ہیں، اس لئے یہ ضروری نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت صدر بائیڈن پر شدید دبائوہے، کیونکہ ائیرپورٹ پر پریشان کن صورتحال کی وجہ سے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ وہ کیسے پیشن گوئی کرسکتے تھے انخلا سے دو ہفتے قبل ملک کا صدر بھاگ جائے گا اور افغان فوج دستبردار ہوجائے گی، وہ اس کی پیشن گوئی نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی طالبان یہ پیشن گوئی کرسکے۔ اس لیے امریکی عوام میں ائیرپورٹ پر ہونے والی صورتحال اور طالبان کے قبضے کی وجہ سے بہت زیادہ رد عمل سامنے آیا۔اب وہ شدید تنقید کی زد میں ہیں اسی لیے مجھے ان سے ہمدردی ہے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات 50 سے 60 سال پر محیط ہیں جب پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن بنا تھا اورپھر سرد جنگ کے دوران پاکستان امریکا کے ساتھ تھا۔ تعلقات میں سرد مہری اور گرمجوشی آتی رہتی ہے۔ میرے خیال میں افغانستان کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ امریکا اپنا کردار ادا کرے کیونکہ وہ وہاں 20 سال رہے ہیں ساور اگر وہاں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو 1979 کی تاریخ دہرائی جائے گی جب سوویت یونین وہاں سے چلا گیا اور پھر امریکی بھی روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد افغانستان میں کیا ہوا، قتل و غارت ہوئی جس میں دو لاکھ سے زائد افغان مارے گئے، افغانستان میں مکمل افراتفری کی صورتحال تھی۔ اس لیے سب کے لیے اور خاص طور پر ہمارے لیے اور دیگر ہمسائیوں کیلئے یہ بات اہم ہے کہ افغانستان میں افراتفری سے سب متاثر ہوں گے اور اس صورتحال میں امریکہ کے پاس کیا رہ جائے گا کہ 20 سال بعد اور 2 کھرب ڈالر سے زائد خرچ کرنے کے بعد اور لاکھوں افغانوں کی جانیں ضائع ہونے کے بعد وہاں ایک بار پھر بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ بحران کی صورت میں بین الاقوامی دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہوں گی۔ جب سے طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے تو گزشتہ40 دن سے پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں پر سرحدی اور شہری علاقوں میں 24 حملے ہوئے ہیں۔
ان حملوں میں پاکستان سکیورٹی فورسز شہادتوں اور تحریک طالبان پاکستان کا حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ2014 میں ہماری فورسز نے شمالی وزیرستان میں بڑا آپریشن کیا۔ آپریشن میں ٹی ٹی پی کے لوگ جو پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں کر رہے تھے ان کو وہاں سے نکال باہر کیا گیا اور وہ افغانستان منتقل ہوگئے۔ وہاں نہ صرف افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں بلکہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را نے بھی ان کی مدد کی اور انہیں پاکستاں میں حملے کرنے کیلئے استعمال کیا۔ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کو نشانہ بنایا اور بلوچستان میں بھی کئی حملے کیے ہیں۔ 40 دنوں سے ان حملوں میں اضافہ ہوا ہے مگر صورتحال پہلے جیسی نہیں کیونکہ ہماری سکیورٹی فورسز بہت منظم اور تجربہ کار ہیں اور15 سال میں پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں شاید کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ تجربہ حاصل کیا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ ہماری انٹیلی ایجنسی دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہے، ہم پراعتماد ہیں کہ ہم ٹی ٹی پی سے نمٹ لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ 2 لاکھ 50 ہزار افراد افغانستان سے پاکستان آئے ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ ان میں ٹی ٹی پی کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو افغانستان میں قید تھے اور داعش کے لوگ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ طالبان کی طرف سے اچانک افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اور بڑے پیمانے پر پاکستان آنے جانے والے لوگوں کی وجہ سے مسئلہ سامنے آیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم ان سے نمٹ لیں گے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں مسلمان حکومت ہے، طالبان کس کے خلاف نبرد آزما ہیں، انہوں نے افغانستاں میں جہاد کا اعلان کیا کیونکہ کہ ان کا کہنا تھا کہ وہاں غیر ملکیوں اور ان کے شراکت داروں کا تسلط قائم ہے۔ پاکستان میں ابتدا میں ٹی ٹی پی کا بھی کہنا تھا کہ ہم امریکیوں کے شراکت دار ہیں اور وہ مجاہدین جن کو سوویت یونین کے خلاف جنگ کیلئے تربیت دی گئی تھی وہ بھی ایسا ہی سمجھتے تھے اور وہ ہم پر حملہ آور تھے جس کے باعث ہمیں 80 ہزار جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا اور اس کے ساتھ پاکستان میں ڈرون حملے بھی کیے گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اب پاکستان میں صورتحال مکمل طور پر مختلف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ پاکستانی طالبان گروپ ہماری حکومت سے امن اور مصالحت کیلئے بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور ہم ٹی ٹی پی میں کچھ گروپس کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، ٹی ٹی پی مختلف گروپس پر مشتمل ہے۔ ہم مصالحت کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالہ سے بات چیت افغانستان میں ہو رہی ہے اور افغان طالبان سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی غیر مسلح ہو کر پر امن ہو تو ہم انہیں معاف کر سکتے ہیں۔ میں یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ میں فوجی حل میں یقین نہیں رکھتا، میں فوجی حل کے خلاف ہوں، اس لیے میں سیاستدان کے طور پر اس بات میں یقین رکھتا ہوں کہ سیاسی حل ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ میں افغانستان کے حوالے سے ہمیشہ ایسا ہی سمجھتا رہا ہوں۔ میرے خیال میں حملوں کی یہ لہر وقتی ہے، ہم بات چیت کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ ہم کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں لکین ہم بات چیت کرہے ہیں، ہم بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں اور سیاسی حل کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والے حملوں میں بھارت کے کلیدی کردار، ٹویٹر اکانٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت کی جانب سے پھیلائی جانے والی غلط اطلاعات، بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف بھارتی اقدامات، مسلمانوں کے خلاف اس عمل کو روکنے کیلئے پاکستان کے کردار کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس حوالہ سے انسانی حقوق کے گروپس کیا کرتے ہیں، وہ ہر سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتے ہیں اور وہ انسانی حقوق کی زیادتیوں کے حل کیلئے دبائو بڑھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف بھارت بلکہ خاص طور پر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، ہم اس مسئلے کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے فورم اور بین الاقوامی میڈیا سمیت ہر فورم پر اٹھاتے ہیں۔ کہ جب طالبان کی انسانی حقوق کی زیادتیوں کی بات کی جاتی ہے تو امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے اس کے بارے میں بھی عالمی برادری کو بات کرنی چاہیے، جہاں پر 9 لاکھ بھارتی فوج نے 80 لاکھ کشمیریوں کو کھلی جیل میں قید رکھا ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالہ سے یکساں پالیسی ہونی چاہیے۔ جب انسانی حقوق کے بارے میں امتیاز برتا جاتا ہے تو اس سے اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہ کہ میرا اس حوالے سے بڑا مضبوط موقف ہے کہ عالمی برادری اور طاقتور ممالک کو کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر بات کرنی چاہیے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس طرح بھارت پر دبائو بڑھایا جا سکتا ہے، جیسا کہ مشرقی تیمور میں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالہ سے میرا موقف ہے کہ اگر آپ انسانی حقوق کی زیادتیوں کا تذکرہ نہ کریں تو آپ کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ نئے بلاکس کی تشکیل پر انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ دوبارہ کبھی ایسا نہ ہو کیونکہ منقسم دنیا کے مقابلے میں تعاون اور میل جول سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
وزیراعظم نے ایک اور سوال پر کہا کہ میں نے چین کے وزیراعظم لی کے ساتھ تین بار بات کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب سے کورونا کی وبا آئی ہے صدر شی نے خود کو محدود کر رکھا ہے، بصورت دیگر انہوں نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔ ان دنوں وہ چین سے باہر کہیں نہیں گئے، میرا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں میری صدر شی سے ملاقات ہو گی۔ ہمارے چین کے ساتھ تعلقات بہت مضبوط ہیں اور یہ ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں جے سی سی کا اجلاس ہوا ہے، سی پیک منصوبہ درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ بدقسمتی سے کورونا وبا نے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر رکاوٹیں پیدا کی ہیں، خاص طور پر ہمارے رابطوں کے ذرائع متاثر ہوئے ہیں۔ مجھے چین کا دورہ کرنا تھا اور صدر شی نے یہاں آنا تھا لیکن یہ سب متا ثر ہوا ہے۔
ایک اور سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ کورونا کی وبا نے دنیا بھر میں اشیا کی رسد کو متاثر کیا ہے۔ دنیا بھر میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں پاکستان اب بھی سستا ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک کی طرح ترقی یافتہ ممالک بھی متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بحران کی وجہ سے اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پاکستان بھی متاثر ہوا ہے اور پاکستان میں ہونے والی مہنگائی درآمد کی جانے والی اشیا کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 5 ماہ میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے، پاکستان خوردنی تیل درآمد کرتا اور بدقسمتی سے ہمیں گندم درآمد کرنا پڑی ہے، گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، پام آئل جو پاکستان میں 70 فیصد استعمال ہوتا ہے وہ بھی درآمد کیا جاتا ہے اس کی قیمت بھی دوگنی ہوگئی ہے۔ ہماری افراط زر درآمد شدہ اشیاء کے باعث ہے جس سے یقینناً لوگوں کیلئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں لیکن یہ عارضی صورتحال ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ رسد کے مسائل کے خاتمہ سے صورتحال میں بہتری آئے گی۔