اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جب تک زندہ ہوں انصاف اور رول آف لاء (قانون کی حکمرانی) کے لیے لڑتا رہوں گا۔
اسلام آباد میں قومی رحمت اللعامین ﷺ کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں اپنی سمت درست کرنی ہے، ملکی ترقی کے لیے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، ملک کے نوجوانوں کو صحیح راستے پر لگانا چیلنج ہے، برطانوی جمہوریت میں ووٹ بکنے کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا، جب تک زندہ ہوں رول آف لا کے لیے لڑتا رہونگا، طاقتور کو قانون کے نیچے لانا ہوگا۔
انہوں نے برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ایک جھوٹ بولنے پر مقامی بااثر شخص کو جیل بھیج دیا گیا اور اگر میں پاناما کی بات کروں تو ہر روز نئے جھوٹ کہے گئے اور قطری خط آگیا۔ اگر انگلینڈ میں قطری خط آجاتا اسی وقت کیس رکنا تھا، اس طرح حلف نامے پر جھوٹ بولا گیا، برطانیہ کا عدالتی نظام اور پاکستان کے عدالتی نظام سے بہت مختلف ہے، اگر مورل اتھارٹی نہ ہو تو انصاف نہیں ہوسکتا یہاں سب کو معلوم ہے کہ سینیٹ بھی پیشہ چلتاہے۔ 90 لاکھ پاکستانی بیرون ملک موجود ہے، اگر 30 سے 40 ہزار پاکستان آکر سرمایہ کاری کردی تو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں پڑے گی، میں ایک ایسے پاکستانی کو جانتا ہوں جس کے پاس اتنی دولت ہے جتنا پاکستان پر آئی ایم ایف کا قرضہ ہے لیکن پاکستان کا سسٹم انہیں پاکستان نہیں آنے دیتا، وہ پاکستان آنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں، اگر خوشحال ہونا ہے تو قانون کی بالادستی قائم نہیں کریں گے۔
وزیراعظم نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آج کل مشکل دور ہے اور ساتھ ساتھ بھی مہنگائی بھی ہے، جس کی اہم وجوہ کورونا وائرس ہے۔ احساس پروگرام کے ذریعے سوا کروڑخاندانوں کوسستے قرضے دیں گے، سوا کروڑخاندانوں کوکھانے، پینے کی اشیا پرسبسڈی دیں گے، کامیاب پاکستان بھی ایک انقلابی پروگرام ہے، خیبرپختونخوا کو ہیلتھ کارڈ دے دیئے، پنجاب کے شہریوں کو مارچ تک مل جائیں گے، غریب خاندان ہیلتھ کارڈ کے ذریعے اپنا علاج کراسکیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ اللہ کا خاص شکر ادا کرتا ہوں کہ ہم آج بھر پور طریقے سے نبی آخر الزمان ﷺ کے یومِ ولادت کا جشن مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منا رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو اپنے پیارے نبی ﷺ کی سیرت کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ اسلام تلوار کی زور پر نہیں تھا بلکہ فکری انقلاب سے پھیلا تھا، سوچ بدلی اور ذہن بدلے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان جب تک نبی کریم ﷺکی تعلیمات پر گامزن رہے کامیابی ان کا مقدر بنی اور جو لوگ منحرف ہوئے انہیں پستی نصیب ہوئی، اس طرح مدینہ کی ریاست ایک ماڈل بنی۔
انہوں نے کہا کہ 3 سال اقتدار میں رہتے ہوئے مجھے حیرت ہوئی کہ اللہ نے پاکستان کو کتنی نعمتیں بخشی ہیں لیکن ہمیں اپنا راستہ ٹھیک کرنا ہے اور اس کوشش میں مجھے اور میری پارٹی کو 25 سال ہوگئے ہیں۔ ریاست مدینہ کے پہلا اصول اخلاق معیار تھا، حضرت محمدﷺ نے معاشرے میں اچھے، برے کے فرق سے متعلق آگاہ کیا، دنیا نے ایسے معاشرے اور فرد کو اہمیت دی۔
عمران خان نے کہا کہ قانون کی بالادستی اور متفرق قانون کے خاتمے کے ساتھ ہی طرز معاشرت میں فکری انقلاب لاسکتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے اہم ستون میں فلاحی ریاست کا تصور بھی ہے، حضرت محمد ﷺ نے دنیا کی پہلی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی اور ریاست نے نچلے طبقے کو بنیادی حقوق دیے اور انصاف اور انسانیت کی بدولت قومیں ایک ہوجاتی ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ملک میں جاگیردانہ نظام کو تو کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ بیرونی طاقت آکر ملک میں اپنی حکمرانی کا جھنڈا نصب کردے، اس لیے برصغیر کو فتح کرنا آسان تھا لیکن افغانستان کو فتح نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ادھر جاگیردانہ نظام نہیں ہے۔ ریاست مدینہ میں میرٹ کا بالادستی تھی، قابلیت کی بنیاد پر لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے تھے اور اسی معاشرے میں لیڈرز پیدا ہوئے، شخصیت سازی کی بدولت صحابہ لیڈر بن گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ سمیت تمام دیگر شعبہ جات میں اگر لیڈر صادق و امین نہ ہو تو اس کی عزت نہیں ہوتی، مدینہ کی ریاست میں پہلی مرتبہ خواتین کو وراثت اور غلاموں کو حقوق فراہم کیے۔ جس طرح مغرب میں نوکروں کو رکھا جاتا ہے اور جو صورتحال یہ یہاں ہے، اس کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ خاندانی نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، ٹی وی چینلزکے پروگراموں کو مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے، ہم بچوں سے موبائل نہیں چھین سکتے، کم از کم تربیت تو کر سکتے ہیں۔ ہم نے اپنے نوجوانوں کوبچانا ہے، ہالی ووڈ کلچرہمارے نوجوانوں کوتباہ کرے گا۔ معاشرے میں جنسی جرائم بڑھنا بہت بڑا خطرہ ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ بڑے صوفیاء کے عرس کے موقع پر لوگ دھمال ڈالتے ہیں ، لوگ خوشیاں مناتے اور چرس پی کر چلے جاتے ہیں، انہیں بتانا چاہیے کہ ہمارا دین تو پیار کا دین ہے، بندوق کی نوک پر تقسیم کرنا ہمارا دین نہیں ہے۔