اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت معاشی صورتحال سے متعلق اعلیٰ اجلاس ہوا، اجلاس کے دوران وزیراعظم کو ملک میں مہنگائی کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات پر گفتگو کی گئی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر ٹیکسز کم کرنے سے متعلق مشاورت کی گئی جبکہ وزیراعظم نے وزرا کو پرائس کنٹرول کمیٹیوں پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کی ہدایت کی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وزرا اپنے حلقوں میں مصنوعی مہنگائی پر نظر رکھیں، مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی سخت ایکشن لیے جائیں۔
اس سے قبل وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ٹارگٹڈ سبسڈیز کی تیاری مکمل کر لی ہے، مہنگائی میں حالیہ اضافہ صرف پاکستان کا نہیں عالمی مسئلہ ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ پوری دنیا میں مہنگائی کا ذکر ہو رہا ہے، دنیا بھر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں چار سوالات سامنے رکھوں گا، مہنگائی کیوں ہوئی ؟، پچھلے سال غیر معمولی آفت کا سامنا کیا ، دنیا ایک دم سے بند ہوئی، اشیاء کی فراہمی زیادہ تھی، استعمال کرنے والے کم ہو گئے، ہم نے ایسی حکمت عملی اختیار کی جسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی اپنائی، ہم نے توانائی، ایکسپورٹ انڈسٹری، ادویات بنانے والی کمپنیاں اور دیگر سیکٹرز کھول دیئے تھے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ دنیا میں کڑی پابندیاں لگیں، یورپی یونین، بھارت، چین اور دیگر ممالک متاثر ہوئے، نظام درہم برہم ہو گیا، جب دنیا معمول پر آئی تو اشیاءخوردونوش کی طلب بڑھی اور قلت ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ 12 ماہ پہلے ستمبر 2020ءسے لے کر ستمبر 2021ءکی نسبت دنیا میں مختلف اشیا کی قیمتوں پر جو اثر پڑا اس کی لسٹ آئی، دنیا میں کروڈ آئل میں 81.55 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان میں 55.17 فیصد اضافہ ہوا، بین الاقوامی دنیا میں گیس کی قیمت میں 135 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان کی ڈومیسٹک گیس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا۔ چینی کی قیمت میں عالمی منڈی میں 53 فیصد جبکہ پاکستان میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔
اسد عمر نے امریکا، چین اور بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان ممالک میں ریکارڈ مہنگائی ہوئی جہاں کبھی مہنگائی کی شرح کا اتنا تصور نہیں تھا۔
وفاقی وزیر نے ورلڈ بینک کے ڈیٹا کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 12ماہ کے دوران خام تیل کی قیمت 81.55 فیصد جبکہ پاکستان میں اسی عرصے میں 17.55 فیصد کا اضافہ ہوا۔ ایل این جی اور گیس کی قیمتوں میں 135 فیصد اضافہ ہوا، پاکستان میں قدرتی ذرائع سے حاصل ہونے والی گیس کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی جبکہ ایل این جی کی قیمت میں 64 فیصد اضافہ ہوا۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ عالمی منڈی میں خوردنی تیل کی قیمت میں 48 فیصد جبکہ پاکستان میں 38 فیصد اضافہ ہوا، مقامی منڈی میں چینی کی قیمت میں 15 فیصد اور عالمی سطح پر 53 فیصد اضافہ ہوا، پاکستان کے مقابلے میں نئی دہلی میں پٹرول کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں، اس کے علاوہ دیگر اشیا ضروریہ کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہیں۔
اسد عمر نے مہنگائی کا طوفان روکنے کے لئے اٹھائے جانے والے حکومتی اقدامات سے متعلق بتایا کہ گزشتہ برس نومبر میں پٹرول پر جی ایس ٹی 17 فیصد لگایا گیا اور ہماری پی ڈی ایل 30 روپے لیٹر تھی۔انہوں نے کہا کہ پٹرول اور ڈیزل پر جی ایس ٹی 17 فیصد سے کم کر کے بالترتیب 6.8 اور 10.3 فیصد کردیا گیا۔آٹے کی قیمت سے متعلق وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ پنجاب اور سندھ ضرورت سے زائد پیداوار ہوتی ہے، اس وقت پنجاب اور سندھ کے اندر فروخت ہونے والے 20 کلو تھیلے پر 290 روپے کا فرق ہے۔
انہوں نے حکومت سندھ پر زور دیا کہ وہ گندم کی ریلیز کردے تاکہ سندھ میں آٹے کی قیمت میں نمایاں کمی آئے۔انہوں نے کہا کہ آئند چند روز میں ٹارگٹڈ سبسڈی کی تفصیلات سامنے ا ٓجائیں گی، اس ضمن میں ساری تیاری کرلی گئی ہے اور جلد ہی وزیر اعظم عمران خان اس کا اظہار کریں گے، نومبر کے آخر تک یہ ریلیف ملنا شروع ہوجائےگا۔ مارچ میں اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی نظر آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال گندم کی ریکارڈ فصل ہوئی ہے، گنے کی پیداوار کابھی اس سال ریکارڈ ٹوٹ جائے گا، آئی ایم ایف کے ساتھ جذباتی بات چیت نہیں تھی ، ہم نے اپنے ایکشن لئے تھے ، ہمیں فیصلے کرنا آتے ہیں ،کورونا میں زندگی موت کے فیصلے کرنے پڑے۔ ہم نے توانائی، گیس، ریفائنری، فرٹیلائزر پلانٹس، برآمدی صنعت، کھانے پینے کی اشیائ تیار کرنے والی اور ادویہ سازی کی صنعتیں کھول دیں، ہمارے ہاں تھوڑے عرصے تک مسئلہ آیا لیکن بہت جلد ہم معمولات زندگی بحال کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے دنیا میں نقصان ہوا، امریکہ کی معیشت 10 فیصد کم ہوئی، بھارت میں آزادی کے بعد سب سے خراب ترین سال گزرا، چین کو بھی اس وبائ کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑا۔ ضروری اشیائ کی پیداوار اور ترسیل کا نظام بری طرح متاثر ہوا، جیسے جیسے دنیا واپس معمول کی طرف آئی، معیشتیں کھلنا شروع ہوئیں تو ہمیں اشیائ کی قلت نظر آنا شروع ہوئی، چاہے وہ کھانے پینے کی اشیائ ہوں یا دوسری اشیا ان سب کے اندر ہمیں بحران نظر آیا، صرف پاکستان میں ان اشیائ کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ کسان جو چیزیں استعمال کرتا ہے اس میں سب سے زیادہ کھپت کھاد کی ہے، عالمی منڈی میں اسی مدت کے اندر کھاد کی قیمتوں میں 67 فیصد ہوا جبکہ پاکستان میں 28 فیصد اضافہ ہوا، زراعت کے شعبہ میں اشیائ کی قیمتوں میں عالمی منڈی کے مقابلے میں سب سے کم اضافہ ہوا۔