اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ہمارے سکولوں اور کالجزمیں انتہا پسندی کی تربیت دی جا رہی ہے۔ انتہا پسندی کی بڑی وجہ مدارس نہیں، سکولز ہیں۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ریاست یا حکومت انتہا پسندی سے لڑنے کے لیے تیارنہیں، انتہاپسندی کی وجہ مدارس نہیں ہمارے سکول اور کالج ہیں۔ ہمارے سکولوں اور کالجز میں انتہا پسندی کی تربیت دی جا رہی ہے۔ سکول اور کالج میں 80ء اور 90ء کی دہائی میں ایسے اساتذہ بھرتی ہوئے جو انتہا پسندی کو پروان چڑھاتے رہے، ہمارے ہاں انتہا پسندی کے بیشتر یا تمام واقعات ایسے نوجوانوں سے ہی پیش آئے جو سکول و کالج سے فارغ تھے، انتہاپسندی کے بیشتر واقعات میں سکول و کالج سے فارغ التحصیل نوجوان ملوث تھے۔
فواد چودھری نے کہا کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کیس میں ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا، انتہا پسندی کی بڑی وجہ مدارس نہیں، سکولز ہیں، 90 کی دہائی میں سکولز کالجز میں انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے اساتذہ بھرتی کیے گئے، ہمیں یورپ و امریکا سے نہیں، اپنے آپ سے خطرہ ہے۔ انتہاپسندی ملک یا قوم کو تنہا اور تباہ کرسکتی ہے، سیاسی و خارجی وجوہات کی بنا پر صوفیا کی زمین کو انتہا پسندی کی جانب بڑھنے دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک ہی نظریے کے سوا دوسری سوچ یا بات پر کفر کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے، اسلام توازن اور امن کی تعلیمات دیتا ہے، اسلامی تعلیمات یا کسی مذہب کی تعلیمات میں مسئلہ نہیں، ان کی تشریح میں مسئلہ ہوتا ہے۔ ہم نے پولیسنگ کا نظام بھی تباہ و برباد کیا، اس کا کوئی متبادل بھی نہیں، مقامی انتظامی نظام کو بھی تباہ وبرباد کردیا گیا، اگرآپ لوگوں کی زندگیوں کو بچا نہیں پائیں گے، سافٹ چینج کیسےآئےگی؟ حکومتی رٹ ختم ہوگی تو انتہا پسند حاوی ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک قانون کی حکمرانی یقینی نہیں بنائیں گے مثبت تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ مذاکرات وزیراعظم ہاؤس اور وزیر داخلہ کی سطح پر نہیں ہوتے، تھانیدار مذاکرات کیا کرتا تھا، تھانیدار کا انسٹی ٹیوشن ختم کردیا تو اس کے بعد اوپر کے عہدے ختم ہوگئے۔ لوگوں کی زندگیوں کو تب تک نہیں بچا سکتےجب تک قانون کا نفاذ نہیں کرتے، ریاست کا ایک ہی کام ہونا چاہیے وہ ہے قانون کا نفاذ، جو ریاست قانون کانفاذ نہیں کرسکتی اس کے وجود پرسوال آجائےگا، اس صورت میں آپ خانہ جنگی کی طرف جائیں گے، ریاست کا کنٹرول آپ کےاوپرسےختم ہوتاجائےگا، گروپس سامنے آجائیں گے جو ریاستی کنٹرول پر قبضہ کرلیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ انتہا پسندی کا بیانیہ سوسائٹی نے خود ٹھیک کرنا ہے، مختلف نقطہ نظر ہوتےہیں، انتہاپسندانہ نقطہ نظربھی ہوتے ہیں، انتہاپسندانہ نقطہ نظر رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، کوئی کہہ سکتا ہےکہ فلاں حکومت کےساتھ جنگ کرنی ہے، اسےآپ نہیں روک سکتے لیکن اس کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ بندوقیں کلاشنکوفیں لے کر حکومت کے اوپر چڑھ پڑیں کہ آپ جنگ نہیں کرتے تو میں آپ سے جنگ کروں گا، نقطہ نظر رکھنا اور اسے نافذ کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔
فواد چودھری نے کہا کہ ریاست کا ایک ہی کام ہے کہ وہ یقینی بنائےکہ رائٹ آف وائلنس کسی ایک گروپ کے پاس نہیں جائے گا، تاکہ سوسائٹی میں نقطہ نظر کا تنوع رہے، تنوع ہوگا تو انتہاپسندی نہیں ہوگی، آپ کا نقطہ نظر بھی آئے دوسرے، تیسرےکا نقطہ نظر بھی آئےگا، آپ پر منحصر ہے کس نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں کس سے اتفاق نہیں کرتے۔ اگر ریاست کمزور ہو جائے اور شدت پسند گروپ تگڑے ہوجائیں اور وہ کہیں کہ آپ ہمارے نقطہ نظرکےعلاوہ کوئی او نقطہ نظرکہہ ہی نہیں سکتے تو یہاں مسئلہ پیدا ہوتا ہے،جب تک ہم قانون کا نفاذ یقینی نہیں بنائیں گے، ریاستی رٹ کو قائم نہیں کریں گے، انتہا پسندی کا کوئی سافٹ چینج آنےکا کوئی چانس نہیں۔