لاہور: (ویب ڈیسک) متحدہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے ریکوزیشن قومی اسمبلی میں جمع کروا دی ہے، اس قرار داد کے بعد 14 دن کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا ہو گا۔
یاد رہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے 172 ارکان کی حمایت ضروری ہے، اپوزیشن کے پاس 162 ارکان موجود ہیں اور اسے مزید 10 ارکان کی حمایت درکار ہے۔
متحدہ اپوزیشن کی طرف سے قومی اسمبلی اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن بھی جمع کرادی گئی ہے جس کے مطابق ریکوزیشن جمع کرانے کے بعد 14 دن کے اندر قومی اسمبلی اجلاس بلانا لازمی ہوگا۔
لیگل برانچ قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن ریکوزیشن کے مطابق سپیکر اب کسی بھی وقت اجلاس بلا سکتے ہیں، اجلاس بلانے کی حد 14 روز یعنی 22 مارچ بنتی ہے۔ قومی اسمبلی کے رکن کی وفات پر پہلے دن کا اجلاس بغیر کارروائی ملتوی کیا جا سکتا ہے۔
آرٹیکل 95 کے تحت وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی کارروائی 7 دن کے اندر مکمل کرنا لازمی ہو گی، آئین کے تحت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہو گی۔
وزیر اعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كی كامیابی یا ناكامی كے امكانات جاننے كے لیے قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں كے اراكین یا حكومتی اور حزب اختلاف كی نشستوں كی تعداد معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔
2018 كے انتخابات كے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی میں پاكستان تحریک انصاف عددی اعتبار سے سب سے بڑی قوت ہے، جس نے دوسری جماعتوں كی حمایت سے وفاقی حكومت بنا ركھی ہے۔
پاكستان میں وفاقی حكومت كو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف كے 155 اراكین كے علاوہ مسلم لیگ ق 5، متحدہ قومی موومنٹ پاكستان 7، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس 3، عوامی مسلم لیگ 1، بلوچستان عوامی پارٹی 5، جمہوری وطن پارٹی 1 كی حمایت حاصل ہے۔
حكومتی اتحاد كے برعكس اپوزیشن كی نشستوں پر براجمان اراكین اسمبلی میں مسلم لیگ ن 84، پیپلز پارٹی 56، متحدہ مجلس عمل پاكستان 15، عوامی نیشنل پارٹی 1 ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 4 امیدوار ہیں۔
قومی اسمبلی میں چار آزاد امیدوار ہیں۔ آزاد امیدواروں میں این اے 48 شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ، این 50 سے علی وزیر، این اے 218 میر پور خاص سے علی نواز شاہ، این اے 272 گوادر سے آزاد امیدوار میر محمد اسلم بھوتانی شامل ہیں۔
دو آزاد امیدوار اپوزیشن کے حمایت یافتہ ہیں جبکہ دو آزاد امیدواروں کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ حکومت کے حمایت یافتہ ہیں۔
جماعت اسلامی کا ایک رکن قومی اسمبلی ہے جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینا ہے یا نہیں۔
یوں 341 اراكین پر مشتمل قومی اسمبلی میں حكومتی جماعتوں سے تعلق ركھنے والے ایم این ایز كی تعداد 179 ہے، جبكہ 162 اراكین قومی اسمبلی اپوزیشن بینچز كا حصہ ہیں۔
خیال رہے کہ ہنگو سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی خیال زمان اورکزئی گزشتہ ماہ انتقال کر گئے تھے جس پر الیکشن آئندہ ماہ 10 اپریل کو ہو گا۔
وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وہ اپنے عہدے سے فارغ تصور ہوں گے جس کے بعد سپیکر فوری طور پر صدر کو تحریری طور پر تحریک عدم اعتماد کے نتیجے سے آگاہ کرنے کے پابند ہوں گے۔