اسلام آباد:(دنیا نیوز) پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ اس وقت گورنر راج لگانے کا کوئی سبب نہیں اور گورنر راج لگانا پاگل پن ہوگا۔
سندھ میں گورنر راج لگانے کے حوالے سے شیخ رشید کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے سعید غنی کا کہنا تھا کہ اگر کسی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر گورنر راج لگانا ہے تو پنجاب اور کے پی میں لگائیں، سندھ حکومت تمام حکومتوں سے بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے، عدم اعتماد سے بچنے کے لئے گورنر راج لگا کر کوئی فائدہ نہیں ہوگا، حکومت کی خواہش ہے تو پوری کر لیں، ہم انہیں بتا دیں گے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ خواہش ایک شکست خوردہ شخص کی ہوسکتی ہے، حکومت کے چند دن باقی ہیں، اس وقت ایسا کر کے اپنی شکست تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔
قبل ازیں سعید غنی نے کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی کوئی ایم این اے پی ٹی آئی چھوڑ کر نہیں گیا، شرم کی بات کہ وزیراعظم تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ ممبرز کی جاسوسی کروا رہے ہیں، یہ آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہے، آئین و قانون اجازت نہیں دیتا کہ ادارے جاسوسی کریں اور فون ٹیپ کریں، سندھ ہاؤس میں کوئی دہشت گرد نہیں ٹھہرے ہوئے، یہ کوئی جرم نہیں نہ ملک دشمنی ہے، ان کو اخلاقیات کا نہیں پتا، سندھ ہاؤس رہائشی جگہ ہے وہاں کوئی حملہ آور ہوگا تو غیر قانونی ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تو قومی حکومت کی کوئی بات میرے سامنے نہیں آئی، کچھ دن میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگی، ن لیگ کا حق ہے وزیراعظم نامزد کرے، باقی کون اس میں ہوگا تمام پارٹیوں کی لیڈرشپ فیصلہ کرے گی۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد میں سندھ ہاؤس میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کی موجودگی پر وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وفاقی وزرا دھمکیاں دے رہے ہیں، اگر حکومت نے سندھ ہاؤس پر کارروائی کی تو ردعمل شدید ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تاثر دیا گیا کہ سندھ ہاؤس میں اراکین اسمبلی کو جبری رکھا گیا ہے لیکن وہ واضح ہونا چاہیے کہ وہ سب اپنی مرضی سے موجود ہیں، کسی ایم این اے کے ساتھ زبردستی کی تو ہم نے شرافت کا لبادہ نہیں اوڑہوااورصرف پی ٹی آئی نہیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ایم این ایز بھی سندھ ہاؤس میں ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان سابق وزیراعظم کہلانے والے ہیں اور نئی سیاسی پیش رفت کے بعد عمران خان اب کہیں گے مجھے کیوں نکالا، کوئی ایم این اے کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوا۔