تحریک عدم اعتماد : قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو بلانے کا امکان

Published On 19 March,2022 09:36 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں کی طرف سے او آئی سی اجلاس سے متعلق سخت پیغام کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو بلانے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ متحدہ اپوزیشن نے پیر کو تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش نہ کرنے پر ایوان میں ہی دھرنا دینے اور او آئی سی اجلاس روکنے کی دھمکی دی تھی۔ وزرا نے بلاول کے بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور شاہ محمود نے امید ظاہر کی کہ بلاول بھارتی آلہ کار بن کر او آئی سی اجلاس کو سبوتاژ نہیں کریں گے جبکہ شیخ رشید نے بلاول کو چیلنج کیا کہ اگر ہمت ہے تو کانفرنس روک کر دکھائیں۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس 21 مارچ کے بجائے 25 مارچ کو بلانے کا امکان ہے، او آئی سی اجلاس کے باعث اسمبلی سیکریٹریٹ کا چارج وزارت خارجہ کے پاس ہے۔

پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ریکوزیشن کے 14 دن کے اندر اجلاس بلانا لازم ہے، اجلاس کا ہونا لازم نہیں۔

گزشتہ روز وزیراعظم نے سیاسی کمیٹی اجلاس میں بھی قومی اسمبلی اجلاس سے متعلق مشاورت کی تھی۔

پی ٹی آئی اجلاس طلب

اُدھر وزیراعظم عمران خان نے سیاسی کمیٹی کا اجلاس اتوار کو ایک بار پھر طلب کرلیا، بنی گالہ میں ہونے والے اجلاس میں پی ٹی آئی کی سینئر قیادت شریک ہوگی، جس میں اتحادیوں اور ناراض اراکین سے رابطوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

ڈاکٹر عامر لیاقت کو اسلام آباد بلا لیا گیا

وزیراعظم عمران خان نے کراچی سے رکن قومی اسملبی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو ملاقات کیلئے اسلام آباد بلالیا، یہ ملاقات پیر کو متوقع ہے۔

ناراض پی ٹی آئی اراکین واپس آ جائیں گے: وزیراعظم عمران خان پر امید

وزیراعظم عمران خان نے فلور کراسنگ کرنے والے اراکین پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جیسے جیسے ووٹ کا دن قریب آئے گا تو یہ سارے لوگ واپس آئیں گے۔

انہوں نے موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کے حوالہ سے کہا کہ پاکستان کے لوگوں کے سامنے پیسے کی سیاست سے ضمیر خریدے جانے کی سیاست کھل کر سامنے آئی، یہ چوری کا یا سندھ حکومت کا پیسہ ہے، یہ غیر قانونی طور پر یہاں لایا گیا اور اس سے کھلے عام لوگوں کے ضمیر خریدے جا رہے ہیں، سندھ سے پولیس بلا کر اس عمل کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ اگر تحریک انصاف کے ہمارے منتخب لوگ ہم سے تنگ ہیں تو ان کو چھپانے کی کیا ضرورت تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ لوگوں کو اس طرز سیاست کی شکل نظر آنی چاہئے، اسی طرز سیاست کی وجہ سے پاکستان پیچھے رہ گیا، پیسہ خرچ کر کے سیاست میں آنے والوں کو پیسے کے زور پر ضمیر خریدنے پر کوئی شرم نہیں ہے، کیا یہ جمہوریت ہے، مغرب میں پیسے لے کر فلور کراسنگ کا تصور بھی نہیں، وہاں منتخب ممبران کو عوام کا خوف ہے۔ گذشتہ روز تحریک انصاف کے کارکن جذبات میں آ گئے ، پرامن احتجاج سب کا حق ہے، اگر کوئی عوام سے ان کے ووٹ لے کر آئے اور پیسہ لے کر کسی اور جماعت کے ساتھ جائے تو اس کے حلقہ کے عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پرامن احتجاج کریں لیکن تصادم کی طرف نہیں جانا چاہئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کیا کسی ایک جماعت کے ٹکٹ پر جیت کر وفا داری تبدیل کرنا جمہوریت ہے؟ ساری قوم کو حقائق نظر آ گئے، عدم اعتماد کی تحریک جتنے قریب آئے گی قوم کے ان ضمیر فروشوں پر غصہ میں اضافہ ہو گا، زمانہ بدل چکا ہے، اب سوشل میڈیا کا دور ہے، چھانگا کی سیاست کے وقت سوشل میڈیا نہیں تھا، کوشش کر رہے ہیں کہ ان منحرف اراکین میں سے اکثریت عوامی دبائو پر واپس آئیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ 27 مارچ کو اسلام آباد کی تاریخ میں عوام کا سمندر جمع ہو گا اور وہ امر بالمعروف کا پیغام لے کر آئے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا دین ہمیں اچھائی کے ساتھ اور برائی کے خلاف کھڑے ہونے کا حکم دیتا ہے، کرپٹ عناصر چوری کے پیسے سے حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے۔

وزیراعظم کے منصب کا اخلاقی جواز کھو چکے ہو: مریم کی عمران خان پر تنقید

پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ آپ وزیراعظم کے منصب کا اخلاقی، قانونی اور آئینی جواز کھو چکے ہو۔

ان خیالات کا اظہار پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک بیان میں کیا۔

انہوں نے لکھا کہ عوامی نمائندوں کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا یہ عوام کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، دوسرا یہ آپ کی ڈوبتی کشتی میں غرق ہو کر رسوائی اور بدنامی کی تاریخ کا حصہ بن جائیں، دوسروں کو شوکاز نوٹس جاری کرنے سے پہلے، اس شوکاز نوٹس کا جواب دو جو پوری قوم نے آپ کو دے رکھا ہے۔

مریم نواز نے لکھا کہ آپ نے پورے پاکستان کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی میں دھکیل کر اپنی جماعت کے کس رکن کو اس قابل چھوڑا ہے کہ وہ عوام کا سامنا کرے؟، آپ ایک بوجھ ہیں جو اب کوئی نہیں اٹھا سکتا۔

ن لیگ کی نائب صدر نے لکھا کہ اگر بقول آپکے چودہ اراکان آپ کے ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور آپ نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کر دیے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ 342 کے ایوان میں 165 ارکان آپ کے ساتھ رہ گئے ہیں۔ گویا آپ اکثریت کھو چکے ہو۔ آپ وزیراعظم کے منصب کا اخلاقی، قانونی اور آئینی جواز کھو چکے ہو۔اب اقتدار سے چپکتے رہنے کا کیا فائدہ؟

3 منحرف ارکان نے واپسی کے لیے رابطہ کیا ہے: وزیراعظم کو بریفنگ

زیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد پی ٹی آئی کے سامنے آنے والے ناراض ارکین اسمبلی میں سے تین نے واپسی کے لیے واپسی کے لیے پارٹی سے رابطہ کیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی اتحادی جماعتوں اور جہانگیر ترین گروپ سے رابطوں اور منحرف ارکان کے رابطوں سے متعلق بریفنگ دی گئی۔

بریفنگ کے دوران وزیراعظم کو بتایا گیا کہ تین منحرف ارکان نے واپس آنے کے لیے رابطہ کیا ہے جس پر وزیراعظم نے حکومتی ٹیم کو سیاسی رابطے جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

راجہ ریاض اور رانا قاسم نون سے صوبائی وزیر کا رابطہ، واپس آنے کی درخواست

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے باغی ارکان قومی اسمبلی سے پنجاب حکومت کے وزیر کے رابطے کا انکشاف ہوا ہے۔

ذرائع کے مطابق سندھ ہاؤس میں موجود پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی راجہ ریاض اور رانا قاسم نون سے پنجاب حکومت کے اہم صوبائی وزیر رابطہ کیا ہے، رابطے کے دوران اراکین سے کہا گیا ہے کہ پارٹی میں واپس آ جائیں آپ کو عزت وقار ملے گی۔

صوبائی وزیر نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی جانب سے ٹاسک ملنے کے بعد منحرف ارکان سے رابطہ کیا ہے، رابطہ کرنے والے وزیر کا تعلق ملتان سے ہے،

صوبائی وزیر کے مطابق امید ہے بات چیت آگے بڑھے گی۔

مراد راس ، پرویز خٹک کا ترین گروپ سے رابطہ

حکومت کی جانب ترین گروپ کو منانے کی کوششیں جاری ہے ، وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر وزیر تعلیم مراد راس نے ترین گروپ سے رابطہ کیا ، ترین گروپ کے رہنما صوبائی وزیر نعمان لنگڑیال نے رابطے کی تصدیق کر دی۔

وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس نے ترین گروپ سے ملاقات کی ، یہ ابتدائی ملاقات کی نشست دو گھنٹے تک جاری رہی ، جس میں ترین گروپ کے 6 سے زائد ارکان شریک ہوئے۔

مراد راس نے ترین گروپ کو پیشکش کی کہ آئیں بیٹھ کر غلط فہمیاں دور کرتے ہیں، ترین گروپ کے ارکان پارٹی کا حصہ ہیں، گلے شکوے دور کرنے کو تیار ہیں۔

جس پر نعمان لنگڑیال نے کہا کہ ہمیشہ پارٹی قیادت کے حوالے سے مثبت رویہ اختیار کیا، جس پر وزرا کا کہنا تھا کہ ہم بیٹھ کر تمام ایشوز پر بات کر سکتے ہیں۔

ملاقات میں ترین گروپ کے ارکان نے کہا کہ تمام فیصلوں کا اختیار جہانگیر ترین کے پاس ہے۔

اس سے قبل وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کا جہانگیر ترین گروپ کے اہم رہنما عون چودھری سے رابطہ ہوا تھا۔

عون چوہدری نے حکومت سے رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ رات گئے پرویز خٹک سے رابطہ ہوا، انہوں نے بتایا کہ پرویز خٹک نے ترین گروپ سےفوری طور پر انتہائی قدم نہ اٹھانے کی درخواست کی۔

پرویز خٹک نے عون چودھری سے کہا تھا کہ اہم فیصلے روک لیں،جلد اہم ہیش رفت سے آگاہ کریں گے۔

وزیراعظم سے اٹارنی جنرل کی ملاقات

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان سےاٹارنی جنرل خالد جاوید نے ملاقات کی، جس میں مختلف قانونی امور پر بھی مشاورت کی گئی، جب کہ اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت پر بریفنگ دی۔

ذرائع نے بتایا کہ اٹارنی جنرل نے تحریک انصاف کے کارکنان کے سندھ ہاؤس واقعہ پر عدالتی تشویش سے متعلق وزیراعظم کو آگاہ کیا۔

جس پر وزیراعظم نے پارٹی کارکنان کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ دوبارہ اس طرح کا واقع پیش نہ آئے اور عدالت کا جو بھی حکم آئے اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔

راجہ ریاض اور رانا قاسم نون سے صوبائی وزیر کا رابطہ، واپس آنے کی درخواست

سندھ ہاؤس پر حملہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی دلیل ہے: شہباز شریف

متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے سپیکر قومی اسمبلی کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ ہاؤس پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے، یہ حملہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی دلیل ہے، ہم پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگانے والے اپنا گریبان دیکھیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی رہائش گاہ پر ہونے والے اپوزیشن کے ظہرانے میں شرکت کی، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل، بشری گوہر، جہانزیب بلوچ، شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، شیری رحمان، نیئر بخاری، رضا ربانی، نوید قمر اور سلیم مانڈوی والا بھی طہرانے میں موجود تھے۔

اجلاس کے دوران رہنماؤں کے درمیان تحریک عدم اعتماد، حکومتی بوکھلاہٹ سمیت ملکی سیاسی صورت حال پر اہم ترین مشاورت کی گئی۔

میاں شہباز شریف

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ، بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ گزشتہ روز سندھ ہاوس میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا، سندھ ہاوس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، سندھ ہاؤس پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے، کہا جارہا ہے کہ ممبران کو 10 لاکھ لوگوں کے درمیان سے گزرنا پڑے گا، عمران خان نے جمہوریت کی دھجیاں اڑا دی ہیں، عمران خان اپنے اقتدار کیلئے تمام حدیں پار کرنے کو تیار ہیں، حکومت کے اتحادی خود کہہ رہے ہیں کہ کوئی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہو۔ اتحادی خود کہہ رہے ہیں کہ ہم پی ٹی آئی کی وجہ سے حلقوں میں نہیں جاسکتے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی، بے روزگاری نے تباہی مچائی، ایم این این مہنگائی کی وجہ سے اپنے حلقوں میں نہیں جا سکتے، بلوچستان، سینیٹ میں جب انہوں نے ہارس ٹریڈنگ کی اپنا کالا چہرہ دیکھنا چاہیے، ہمارے ساتھ توایک مقصد کے لیے لوگ آئے ہیں، جس کوجیت کا یقین ہو وہ کبھی لڑائی نہیں چاہتا، ہم آئین وقانون کے راستے پرچل کر اپنا حق استعمال کرنا چاہتے ہیں، سپیکر کو وارننگ دیتا ہوں اپنا آئینی رول ادا کریں، سپیکرصاحب ابھی بھی وقت ہے عمران کے آلہ کارنہ بنیں، ورنہ تاریخ سپیکرکوکبھی معاف نہیں کرے گی۔

لیگی صدر کا کہنا تھا کہ تمام لوگ ضمیرکی آواز پر ہمارا ساتھ دے رہے ہیں، ہمیں طعنہ دینے والے اپنے گریبان میں جھانکیں، بلوچستان میں انہوں نے بوریوں کے منہ کھولے تھے، اسلام آباد انتظامیہ کو وارننگ دیتا اگرعمران نیازی کے آلہ کاربنیں تو قانون اپنا راستہ اپنائے گا پھرگلہ نہ کرنا۔

مولانا فضل الرحمان

اس موقع پر پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ روزاول سے قومی مجرم کے مقابلے میں میدان میں کھڑے ہیں، حق کا علم لہراتے ہوئے آگے بڑھے ہیں، ہماری منزل آن پہنچی ہے۔ جلسوں میں استعمال ہونے والی زبان ایک گھٹیا انسان بھی استعمال نہیں کرسکتا، اگرشرافت قریب سے بھی گزری ہوتی تو ایسی زبان استعمال نہ ہوتی، ہم نے کارکنوں کو گالی نہیں جرات، شجاعت، بہادری کی سیاست سکھائی ہے۔ ناجائز، نااہل حکمران کو کیفر کردار تک پہنچیں گے، شکست سے دوچارہوکراپنے گھرجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے ممبران سے خود کہتا ہے جہاں مرضی ووٹ دیں، جب اراکین مرضی کے خلاف جارہے ہیں تو انہیں گالیاں دے رہا ہے، جب جہاز اڑا کر بندوں کو لاتے تو اس وقت ضمیر کی آواز کہاں تھی، آج ضمیرکی آوازپرآنے والوں کو گھوڑے کہاں جارہا ہے، ہم جنگ جیت چکے ہیں۔ پہلے دن سے قومی مجرم کے مقابلے میں میدان میں کھڑے ہیں، ہماری منزل آن پہنچی ہے، ناجائز،نااہل حکمران کیفر کردار تک پہنچیں گے، یہ شکست سے دوچار ہو کر اپنے گھر جائیں گے۔ 10لاکھ بہت بڑی بات ہے، 172 افراد لے آئیں بڑی بات ہوگی، جعلی حکومت کے خلاف اتنی دنیا ہو گی یہ خس وخوشک کی طرح بہہ جائیں گے۔
 

پی ٹی آئی کا 14 منحرف ارکان کو شوکاز نوٹسز جاری

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنے 14 منحرف ارکان کو شوکاز نوٹسز جاری کردیے گئے۔

سیکریڑی جنرل پی ٹی آئی اسد عمر کی جانب سے جن 14 ارکان کو شو کاز نوٹسز جاری کیے گئے ان میں نور عالم خان، افضل ڈھاندلا، نواب شیر، راجہ ریاض، احمد حسین ڈیہڑ، رانا محمد قاسم، محمد عبدالغفار وٹو، مخدوم زاده سید باسم احمد، عامر طلال گوپانگ، خواجہ شیراز محمود، سردار ریاض محمود خان ، وجیہہ قمر، نزہت پٹھان اور رمیش کمار شامل ہیں۔

ان ارکان کو شو کاز نوٹسز آئین کی شق 63 اے کے تحت جاری کیے گئے جس میں کہا گیا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ تحریک انصاف چھوڑ کر وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والی اپوزیشن جماعتوں سے مل چکے ہیں۔

تحریک انصاف کی جانب سے ان ارکان کو ایک ہفتے (26 مارچ تک) کا وقت دیا گیا ہے کہ آیا پارٹی سربراہ عمران خان سے ملاقات میں یا اس شو کاز نوٹس کے جواب میں وضاحت دیں۔

وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع

واضح رہے کہ 8 مارچ کو اپوزیشن ارکان نے اسپیکر آفس میں وزیراعظم کیخلاف تحریک جمع کرائی ہے۔ تحریک قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ سکیں گے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 172 ووٹ درکار ہیں۔

متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اتحادی جماعتوں کے ممبران اسمبلی کونشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر اپوزیشن حکومتی اتحادیوں جماعتوں کے 10 ارکان لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو تحریک کامیاب ہو جائے گی۔

قومی اسمبلی میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے 7، بی اے پی کے 5، مسلم لیگ ق کے بھی 5 اراکین، جی ڈی اے کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔

حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے 15، بی این پی کے 4 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ 2 آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔