اپریل میں نئے آرمی چیف کی تقرری کی باتیں قیاس آرائیاں ہیں: عمران خان

Published On 25 March,2022 05:05 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپریل میں نئے آرمی چیف کی تقرری کی باتیں قیاس آرائیاں ہیں، تعیناتی نومبر میں ہونی ہے۔

سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سیاسی عدم استحکام پھیلا جارہا ہے، تحریک عدم اعتماد قانونی اور سیاسی معاملہ ہے اس کا سامنا کریں گے، ضمیر فروشی کسی صورت قابل قبول نہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر آخری وقت تک پتا نہیں چلے گا، کتنے لوگ آتے ہیں، یہ اسی دن معلوم ہو گا۔ اتحادیوں کیساتھ رابطے میں ہیں، سارے کارڈ آخری دن سامنے آئیں گے، نمبرگیم آخری اوورتک چلے گی۔ پُر امید ہوں الیکشن جلد ہوں یا بدیر پوری طرح تیارہیں، عدم اعتماد کا نتیجہ جو بھی ہو اس کے لئے تیارہوں، جیسےبھی سیاسی حالات کا سامنا ہو ہم کبھی بھی اداروں سے متعلق اس نہج پرنہیں جائیں گے، جیسےماضی کی حکومتیں جاتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، نئے آرمی چیف کی تعیناتی نومبر میں ہونی ہے، اپریل میں آرمی چیف کی تقرری کی باتیں قیاس آرائیاں ہیں۔ 

ووٹنگ سے ایک دن پہلے اپوزیشن کو سرپرائز ملے گا: وزیراعظم کا استعفی نہ دینے کا اعلان

واضح رہے کہ 23 مارچ کو بھی صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کسی بھی صورت استعفی نہ دینے کے عزم کا اظہار کرتےہوئے کہا تھا کہ کسی کو غلط فہمی ہو سکتی ہے میں گھر بیٹھ جاؤں گا، ووٹنگ سے ایک دن پہلے اپوزیشن کو سرپرائز ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ نیوٹرل والی بات کا غلط مطلب لیا گیا، نیوٹرل والی بات اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے تناظر میں کی، فضل الرحمان سیاست کا بارہواں کھلاڑی ہے، فضل الرحمان کے اب ٹیم سے باہر ہونے کا وقت ہو گیا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ سیاست کے لیے فوج کو بدنام نہ کیا جائے ، فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہوجاتے، مضبوط فوج ملک کی ضرورت ہے، فوج کو غلط تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سرپرائز کارڈ ابھی باقی ہیں، اپوزیشن کو صبح معلوم ہو گا کہ ان کے کتنے لوگ انکے ساتھ نہیں ہیں ، شہباز شریف کے ساتھ بیٹھ کر اپنی توہین کروں، ہم نے حکومت میں ہوتے ہوئے ارکان کی خرید نہیں کی ، شہباز شریف کرپشن کا برینڈ ہے، نواز شریف نے صحافیوں کو لفافے دینا شروع کیا، نواز شریف پریس کانفرنس بھی نہیں کرسکتا تھا۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ عدم اعتماد والا میچ ہم جیتیں گے، کیا لڑائی سے پہلے ہاتھ کھڑے کردوں، کیا چوروں کے دبائو پر استعفی دے دوں۔ کسی صورت استعفی نہیں دوں گا، کسی غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ گھر بیٹھ جائوں گا، چودھری نثار سے 50 سال پرانا تعلق ہے۔ چودھری نثار سے ملاقات ہوئی ہے۔انہوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔ ن لیگ اور پی پی کی سیاست چوری اور چوری چھپانا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے بہت سے لوگوں کو پیسے کی آفر ہوئی، پیشکش آنے کے بعد ہمارے بھی سارے ارکان کوپتہ چل گیا کیا ریٹ چل رہا ہے، 15ارب میں سب کو خرید سکتا تھا، کشمیر ،گلگت بلتستان سمیت تین صوبوں میں میری حکومت ہے، نواز شریف نے بینک لوٹ کر پیسہ بنایا، اپنے پہلے دور اقتدار میں نواز شریف نے من پسند بینک سربراہ لگائے، نواز شریف نے بینکوں سے قرض لے کر واپس نہیں کیا ، سابق وزیراعظم نے چوری کے پیسے سے ملیں لگا لیں، کیا آپ 20 لوگ خرید کر حکومت گرا دیں گے۔

صحافی نے سوال کیا کہ آپ بلیک میل کیوں نہیں ہوتے؟ جس پر جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ میری ذات کا نہیں، اس لیے میں بلیک میل نہیں ہوتا، ہر حکمران جماعت سے لوگ ناراض ہوتے ہیں، وزیر نہ بن سکنے والوں کی ناراضی ہوتی ہے، 5 ورلڈ کپ کھیلا، 1992 میں کہا کہ اس بار جیت کر آئوں گا، پہلے بتا رہا ہوں عدم اعتماد والا میچ بھی جیتوں گا، قومی مجرموں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ریفرنس اس لیے بھیجا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کو روکا جا سکے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی ویڈیو سامنے آئی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اب سپریم کورٹ کے سامنے سوال قانون سے آگے نکل چکا ہے۔عدالت جائزہ لے کیا پیسہ خرچ کر کے حکومت گرانا جمہوریت ہے؟

وزیراعظم نے کہا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے والی ہے۔ این آر او نہیں دوں گا۔ نہ صرف میرے ناراض کارکن واپس آچکے بلکہ نئے لوگ پارٹی جوائن کررہے ہیں۔ عوام بھی میرے ساتھ ہے۔ قوم دیکھ رہی ہے سب ڈاکو میرے خلاف اکھٹے ہوچکے ہیں۔ مجھے حکومت کے جانے یا نہ جانے کا اس لیے خوف نہیں میں نے چوری کرکے جائیدادیں نہیں بنائیں، اپنے گھر میں رہتا ہوں، گھر کا خرچہ خود اٹھاتا ہوں، میرا کوئی رشتہ دار حکومتی عہدے پر نہیں۔ بیرونی طاقتیں چاہتی ہیں کٹھ پتلیوں کو اوپر لائیں کیونکہ چور سر اٹھا کر بات نہیں کر سکتا۔ جن کا پیسہ باہر پڑا ہو، اس کو مینج کرنا آسان ہوتا ہے۔

Advertisement