برے القابات سے پکارنے کی ممانعت

Published On 25 March,2022 07:42 pm

لاہور:(روزنامہ دنیا) ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے، اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعاً ناجائز ہے۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک مذاق اڑانا ہے۔ مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے۔

اس تضحیک آمیز رویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ چنانچہ باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ، بد گمانی، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص خدا کی رحمت سے محروم ہو کر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا ہے۔ اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہو جاتا ہے۔

اسلام نے مسلمانوں کوایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ہے اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے، عیب جوئی کرنے، طعنہ دینے اور برے القاب سے پکارنے سے منع کیا ہے۔ یہ رویہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے خصوصی احکامات سورة الحجرات میں واضح طور پر بیان فرمائے ہیں۔”اے ایمان والو ! مردوں کا کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان (مذاق اڑانے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو، ایمان کے بعد فاسق کہلانا برا نام ہے اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں“ (الحجرات :11)۔

مذاق اڑانے کا مفہوم

امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ تمسخر کرنے یا مذاق اڑانے کے معنی ہیں کہ اہانت و تحقیر کے ارادے سے کسی کے حقیقی یا مفروضہ عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے۔ (امام غزالی،احیاءالعلوم ،ج3،ص 207)

مذاق اڑانے کی صورتیں

1۔ مذاق کسی متعین فرد یا گروہ کے متعلق کیا جا رہا ہو یعنی یہ مخصوص ہو اور عام نہ ہو۔

2۔اگرمذاق کرنے والے کا مقصد کسی مخصوص شخص یا قوم کی توہین کرنا یا اسے کمتر ثابت کرنا یا اسے بدنام کرنا ہو یا پھر یہ مذاق اس متعلقہ شخص کو برا لگے۔ ان دو میں سے کوئی ایک بات بھی پوری ہو رہی ہو تو بھی یہ مذاق اڑانے ہی کے زمرے میں آئے گا۔

مذاق اڑانے کا شرعی حکم

مذاق اڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کیلئے زبان یا اشارات، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاءرسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (جہنم کے خطرات، ص 173)

تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔ اسی لئے روایات میں کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔

حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہو گی(صحیح بخاری: 440 )۔

مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے تکبر کا رویہ کارفرما ہے اورتکبرکے متعلق قرآ ن و حدیث میں سخت الفاظ میں مذمت بیان ہوئی ہے۔عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا( صحیح مسلم، 266)۔

مذاق اڑانے کا نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری اورایذارسانی کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس ایذا رسانی کی مذمت ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان تکلیف نہ اٹھائیں۔( صحیح بخاری:10 )، امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے، نبی کریمﷺنے ارشادفرمایا: میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے۔(سنن ابی داﺅد، کتاب الادب، حدیث :4875)

حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی فرماتے ہیں:کسی کو ذلیل کرنے کےلئے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا، اس کا مذاق اڑانا، نقل اتارنا، طعنہ مارنا،عار دلانا، اس پر ہنسنا یا اس کو برے برے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عرفی شرفاءکہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں ۔ محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسخر اور اِستہزاءکرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں، کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں، کبھی عار دلاتے ہیں، یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔ لہٰذا ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تَمَسخر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں۔ جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ ان مالدارو ں کو ہوش میں آ نا چاہیے کہ اگر وہ اپنی ان حرکتوں سے باز نہ آئے تو یقیناً وہ قہرِ قَہّار و غضبِ جَبّار میں گرفتار ہو کر جہنم کے سزا وار بنیں گے (جہنم کے خطرات، ص175، 176)۔

ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارنے کی ممانعت

قرآن مجیدمیں ہے:( ”اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے بلاؤ “الحجرات:12)۔

اس آیت میں ” تنابزوا “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : کسی شخص کو کوئی لقب دینا ،وہ لقب اچھا ہو یا برا، لیکن عرب میں یہ لفظ برے لقب دینے کے ساتھ مخصوص ہوگیا۔

حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا، اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی برے کام کو چھوڑ کر اس سے توبہ کر چکا ہو اور حق کی طرف رجوع کر چکا ہو، اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے پچھلے کاموں پر عار دلانے سے منع فرمایا۔ (جامع البیان،ج26 ،ص 172)

حضرت معاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو اس کے کسی گناہ پر شرمندہ کیا (امام احمد نے کہا: اس سے مراد ایسا گناہ ہے جس سے وہ توبہ کر چکا ہو) تو وہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے (سنن ترمذی:2505)

مسلمان کے متعلق بدگمانی حرام

قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ”اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بیشک بعض گمان گناہ ہیں اور نہ تم (کسی کے متعلق) تجسس کرو، اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس کو ناپسند کرو گے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے، بے حد رحم فرمانے والا ہے“۔ (الحجرات:12)

بدگمانی سے متعلق روایت حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”تم گمان کرنے سے بچو کیونکہ گمان کرنا سب سے جھوٹی بات ہے اور تجسس نہ کرو اور (کسی کے حالات جاننے کےلئے) تفتیش نہ کرو اور کسی سے حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو اور نہ کسی سے بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ “۔ ایک روایت میں ہے: اور کسی مسلمان کےلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی کو چھوڑ رکھے۔ (صحیح بخاری: 6065)

بعض علماءنے کہا ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت میں اور مذکور الصدر حدیث میں گمان کی ممانعت سے مراد بدگمانی سے منع کرنا ہے اور کسی پر تہمت لگانے سے منع کرنا ہے۔ مثلاً کوئی شخص بغیر کسی قوی دلیل کے اور بغیر کسی سبب موجب کے یہ گمان کرے کہ وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتا ہے۔ یعنی ایسے ہی کسی کے دل میں خیال آ جائے کہ فلاں شخص فلاں برا کام کرتا ہے تو یہ بدگمانی ہے۔

نیز اس آیت میں فرمایا ہے : اور تجسس نہ کرو یعنی کسی مسلمان کے عیوب اور اس کی کوتاہیوں کو تلاش نہ کرو۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان کے ظاہر حال پر عمل کرو اور اس کے عیوب کو تلاش نہ کرو اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے جس مسلمان کے عیوب پر پردہ رکھا ہوا ہے اس کے پردہ کو چاک نہ کرو۔ حدیث میں ہے، حضرت معاویہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم لوگوں کے عیوب تلاش کروگے تو تم ان کو خراب کردو گے۔ (سنن ابو داؤد:4888)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان کے عیب پردہ رکھا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا۔ (صحیح بخاری :2442،صحیح مسلم:695)

عام لوگوں کےلئے لوگوں کے احوال کو تلاش کرنا ممنوع ہے لیکن حکومت داخلی اور خارجی معاملات کی حفاظت کےلئے جاسوسی کا محکمہ قائم کرے تو یہ جائز ہے۔

ملک کے داخلی اورخارجی استحکام کیلئے محکمہ جاسوسی قائم کرنے کا جواز

ملک کے داخلی معاملات کی اصلاح کےلئے جاسوس مقررکرنے کی اصل یہ حدیث ہے: حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیرؓ کو اور حضرت مقدادؓ کو بھیجا اور فرمایا تم روضہ خاخ(مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک باغ )میں جاؤ، وہاں ایک مسافرہ ہو گی، اس کے پاس ایک خط ہو گا وہ اس سے لے کر قبضہ میں کر لو۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے گئے،ہم نے اس سے کہا کہ خط نکالو، پہلے اس نے انکار کیا مگر ہمارے ڈرانے پر اس نے اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکالا، ہم اس خط کو لے کر رسول اللہ ﷺکے پاس آئے“۔ ( صحیح بخاری: 3007،صحیح مسلم:2494)

علامہ بدر الدین عینی نے لکھا ہے کہ اگر مسلمان مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرے تو اس پر تعزیر لگائی جائے گی، اگر اس کا عذرصحیح ہو تو اس کو معاف کر دیاجائے گا، اگر کافر مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا۔ (عمدة القاری ،جلد 14 ،صفحہ 356)

دشمن ملک کی طرف جاسوس روانہ کرنے کی اصل یہ حدیث ہے:حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 10 جاسوس روانہ کئے اور حضرت عاصم بن ثابت انصاریؓ کوان کا امیر بنایا۔(صحیح بخاری، حدیث 3989، صحیح مسلم،حدیث 1776)

خلاصہ کلام:مذکورہ بالاقرآن واحادیث کے دلائل اور آئمہ کی تصریحات سے واضح ہوا کہ کسی بھی مسلمان کا مذاق اڑانا، عیب جوئی کرنا، طعنہ زنی کرنا اوربرے القاب یا ناموں سے پکارنا شرعاً حرام ہے۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں پاکستانی سیاستدانوں، حکمرانوں اور زعماءکوچاہیے کہ وہ زبان وبیان کا استعمال سوچ سمجھ کرکریں۔ یہ لوگ عوام الناس کےلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ عربی کا مقولہ ہے: ”لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں“۔ اس لیے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور زعماءملت کوبہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

(ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان)