اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 25 مئی کو ہونے والے لانگ مارچ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لانگ مارچ سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے لانگ مارچ اور سڑکوں کی بندش سے متعلق درخواست دائر کی، جس پر عدالت عظمیٰ کے 14 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ جاری کر دیا گیا، فیصلہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا، تحریری حکمنامے میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کی قیادت اور مظاہرین نے احتجاج ختم کر دیا، لانگ مارچ کے ختم ہونے کے بعد تمام شاہراوں کو کھول دیا گیا، آزادانہ نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں، درخواست دائر کرنے کا مقصد پورا ہو چکا ، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کو نمٹایا جاتا ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق عدالت عظمیٰ کو مایوسی ہوئی کہ عدالتی کوشش کا احترام نہیں کیا گیا، عدالت کی کارروائی کا مقصد دونوں فریقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا، عدالتی حکم نامہ موجود فریقوں کی موجودگی میں جاری کیا گیا، اس کیس میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعلیٰ اخلاقی اقدار میں کمی واقع ہوئی، سیاسی جماعتوں کےاقدام سے عوامی حقوق اور املاک کو نقصان پہنچا۔
تحریری فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کے مطابق عمران خان نے پی ٹی آئی سپورٹرز کو ریڈ زون کے ڈی چوک پہنچنے کا کہا، عدالت میں اسکرین پر عمران خان کے بیان کی ویڈیو چلائی گئی اور اٹاری جنرل کے مطابق لگتا ہے عمران خان نے عدالت کو دی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی، اس کے نتیجے میں پبلک اور پرائیوٹ پراپرٹیز کو نقصان پہنچایا گیا اور تباہ کی گئیں، بلیو ایریا میں کچھ گرین بیلٹس پر واقع درختوں کو آگ لگائی گئی، مظاہرین کے پتھراؤ سے 31 پولیس اہل کار زخمی ہوئے اور سول انتظامیہ کی مددکیلئے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو آدھی رات کو طلب کرنا پڑا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کویقین دہانی کی خلاف ورزی پرعمران خان کےخلاف کارروائی کی سفارش کی، لگتاہے پی ٹی آئی ورکرز نے ڈی چوک جاکر پی ٹی آئی قیادت کی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی، عمران خان نے صبح سویرے جناح ایوینیوپہنچ کردھرنا 6 دن کیلئے ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔
تحریری فیصلے کے مطابق سوال ہے آیا مشتعل ہجوم کی کارروائیوں کا الزام پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت پرعائدکیا جاسکتاہے؟ اب تک کوئی ثبوت یا الزام نہیں کہ ایسی کارروائیاں پارٹی کے اکسانے یا اتفاقی رونما ہوئیں، اٹارنی جنرل کا دعویٰ ہے تحریک انصاف کے کارکن اپنے لیڈر کی کال پر ڈی چوک پہنچے، اٹارنی جنرل کی درخواست کے باوجود ہم ابھی کئی وجوہات پر تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اول یہ عمران خان نے ریلی/عوامی جلسہ ختم کردیا تھا، دوسرا یہ مصلحت تقاضاکرتی ہے اسٹیک ہولڈرز کے مابین سوچ بچار کیلئے وقت دیاجائے، آزادکارروائی کیلئے قابل بھروسہ مواد عدالت کو فراہم کیاجائے تاکہ جائزہ لیا جاسکےکہ ملزمان کےخلاف کارروائی بنتی ہے یا نہیں؟
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حقائق کی بنیادپر تصدیق کی ضرورت ہےکہ عدالت کی دی گئی یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کی گئی، عدالت کو دیکھناہوگا کہ خلاف ورزیوں پرکس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو، پی ٹی آئی قیادت اوردیگرسیاسی جماعتیں پرامن سیاسی سرگرمیوں کاضابطہ اخلاق بنائیں گی۔
اکثریتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ پرامن احتجاج آئینی حق ہے مگر یہ ریاست کی اجازت کے ساتھ ہوسکتا ہے، ایسے احتجاج کی اجازت ہونی چاہیے جب تک آرٹیکل 15 اور16 کے تحت پابندیاں لگانا ناگزیر ہوجائے، احتجاج کا حق قانونی، معقول بنیادوں کے بغیر نہیں روکا جاسکتا۔
اکثریتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی یقین دہانیوں پر 25 مئی کوحکم جاری کیا، حکم نے مظاہرین اور عوام کے حقوق اور ریاست کے فرائض میں توازن پیدا کیا، عدالت نے نیک نیتی سے توازن قائم کرنے کا حکم دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے مخالف فریقین کی یقین دہانیوں پراعتماد کرتے ہوئے حکم دیا، عدالت کی طرف سے نیک نیتی سے کی گئی کوششوں کی توہین کی گئی اور عدالت کو 25 مئی کے حکم کی خلاف ورزی پر رنج ہے۔
اسی دوران عدالت نے آئی جی پولیس، چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی جی آئی بی اور ڈی جی آئی ایس آئی، سیکرٹری وزارت داخلہ سے بھی ایک ہفتے میں سوالوں کے جواب طلب کر لیے۔
سوالات میں پوچھا گیا کہ عمران خان نے پارٹی ورکرز کو کس وقت ڈی چوک جانے کی ہدایت کی؟ کس وقت پی ٹی آئی کارکنان ڈی چوک میں لگی رکاوٹوں سے آگے نکلے؟ کیا ڈی چوک ریڈ زون میں داخل ہونے والے ہجوم کی نگرانی کوئی کررہا تھا؟ کیا حکومت کی جانب سے دی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟ کتنے مظاہرین ریڈزون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟
سوالات میں پوچھا گیا کہ ریڈ زون کی سکیورٹی کے انتظامات کیا تھے؟ ایگزیکٹو حکام کی جانب سے سکیورٹی انتظامات میں کیا نرمی کی گئی؟ کیا سکیورٹی بیریئر کو توڑا گیا؟ کیا مظاہرین یا پارٹی ورکر جی نائن اور ایچ نائن گراونڈ میں گئے؟ عدالت نے زخمی، گرفتار اور ہسپتال میں داخل ہونے والے مظاہرین کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائیگا کہ عدالتی حکم کی عدم عدولی ہوئی یا نہیں، کیا حکومت کو دی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟
جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ بھی لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ عمران خان نے اپنے کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کا کہا اور 25 مئی کے عدالتی احکامات کو نہیں مانا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی لکھتے ہیں کہ میں اس بات سے آمادہ نہیں عمران خان کے خلاف کارروائی کیلئے عدالت کے پاس مواد موجود نہیں، میری رائے کے مطابق عمران خان نے عدالتی احکامات کی حکم عدولی کی۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے بیان کی ویڈیو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چلائی گئی، عمران خان کے بیان میں کہاگیااسلام آباد اور راولپنڈی سے لوگ ڈی چوک پہنچنےکی کوشش کریں، میں انشااللہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں ڈی چوک پہنچ جاؤں گا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ میرے خیال میں عمران خان کا یہ بیان اوربعد کاعمل 25 مئی کےعدالتی حکم سے ماورا تھا، بادی النظر میں یہ عمران خان نے عدالت کے 25 مئی کے احکامات کی حکم عدولی کی۔ عدالت کے پاس عمران خان کیخلاف کارروائی کرنے کیلئے کافی مواد موجود ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نےعمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنےکی سفارش کی اور لکھاکہ عمران خان سے پوچھا جائے کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟