لاہور: (سلمان غنی) عدالت عالیہ کی جانب سے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے اپنی سماعت میں ان ریمارکس نے کہ "فریقین اپنے تحفظات دور کر لیں اور پھر پچیس اراکین کو نکال کر وزارت اعلیٰ کا انتخاب دوبارہ کرا لیتے ہیں" نے ایک مرتبہ پھر سے پنجاب حکومت کے مستقبل کے آگے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ جسٹس صداقت علی خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے بعد صورتحال تبدیل ہو جاتی ہے تو یہ قانونی ہو گی ۔ہم سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کی حد تک فیصلہ دیں گے۔ جبکہ جسٹس شاہد جمیل کا کہنا تھا کہ موجودہ سیٹ اپ الیکشن کے انعقاد تک چلتا رہے گا۔ عدالت عالیہ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت سے پوچھ کر بتائیں کہ دوبارہ اس حوالے سے اجلاس کب بلایا جا سکتا ہے جبکہ وزیراعلیٰ حمزہ شہبازشریف کے وکیل منصور اعوان اور پی ٹی آئی کے وکیل سید علی ظفر نے پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب بارے عدالت کو اپنے اپنے مؤقف سے آگاہ کیا۔
پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ وزارت اعلیٰ کا انتخاب قانون کے مطابق نہیں ہوا ،یہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت کرایا جائے۔ مذکورہ سماعت میں عدالت نے یہ تو واضح کر دیا کہ وزارت اعلیٰ کی پولنگ کیلئے نئے ممبران شمار نہیں ہوں گے اور اگر نئے ممبران کی رائے شماری پر زور دیا گیا تو پھر نئی تحریک عدم اعتماد لانا ہوگی۔ مذکورہ عدالتی کارروائی کی بناء پر یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب ہو سکتا ہے جس کیلئے ایک مرتبہ پھر پنجاب کی موجودہ حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ حمزہ شہبازشریف کیلئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنی صف بندی کو محفوظ بنانے اور انتخابات میں یقینی جیت کیلئے اقدامات شروع کر دیئے ہیں ۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے امیدوار سپیکر چودھری پرویزالٰہی نے بھی عدالتی کارروائی کو اپنی جیت سمجھتے ہوئے اراکین سے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ عدالت عالیہ نے مذکورہ سماعت میں یہ بات بھی واضح کر دی کہ وزارت اعلیٰ کیلئے دوبارہ انتخاب میں پریذائیڈنگ افسر ڈپٹی سپیکر دوست مزاری ہی ہوں گے اور اس حوالے سے خود عدالت عالیہ کا فیصلہ موجودہے جسے کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ ایسی صورت میں انتخاب وہی پریذائیڈنگ افسر کرائے گا جس نے انتخاب 16 اپریل کو کرایا تھا۔
مذکورہ عدالتی سماعت کے بعد اگر پنجاب اسمبلی میں صف بندی پر نظر دوڑائی جائے تو ایوان میں موجود حکمران اتحاد کو اس وقت 177اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ ان میں مسلم لیگ (ن) کے 165، چار آزاد، ایک رائے حق پارٹی اور سات پیپلزپارٹی کے اراکین شامل ہیں۔ تحریک انصاف جو کہ ایوان کی اکثریتی جماعت تھی اور اس کے 183 اراکین میں سے اس کے 25اراکین منحرف ہو جانے کے بعد اب تحریک انصاف کو موجودہ ایوان میں 158اراکین کی حمایت حاصل ہے جبکہ ق لیگ کے دس اراکین کی مدد سے اس کی تعداد 168 ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کا زور ہے کہ پانچ مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے اور اس نوٹیفکیشن کی صورت میں بھی ان کی تعداد 173 ہو گی۔ مذکورہ صورتحال کی روشنی میں ایک رکن، چودھری نثار علی خاں کا ووٹ اہمیت کا حامل ہوگا لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ چودھری نثار علی خان نے مذکورہ صورتحال میں اپنے دو طرفہ روابط کی بناء پر ایک مرتبہ پھر اس رائے شماری میں غیر جانبدار ہونے کافیصلہ کیا ہے۔
مذکورہ صورتحال میں ایوان کی صف بندی کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت بھی حکمران اتحاد کو چار ووٹوں کی برتری حاصل ہو گی۔ البتہ انتخاب کی صورت میں ایوان کی تکمیل پر وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے 186اراکین درکار ہوں گے جس میں پھر سے 17جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کی اہمیت ہو گی ۔ ضمنی انتخابات پر نظر دوڑائی جائے تو 2018ء کے انتخابات کے نتائج میں ان حلقوں کے دس اراکین نے آزاد حیثیت میں جیت کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی اور دس اراکین براہ راست تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر جیت کر میدان میں آئے تھے ۔
سپریم کورٹ نے منحرف 25 اراکین کو ڈی سیٹ کر دیا تھا اور اب ان حلقوں میں 17 جولائی کو انتخابات ہو رہے ہیں ۔ البتہ تین خواتین اور دو اقلیتوں کی نشستوں پر عدالت عالیہ کے احکامات کے تحت الیکشن کمیشن کو نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے۔ تاحال یہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ یہ جاری کیا جا رہا ہے ۔اس کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کے اراکین کی تعداد 158سے 163 ہو جائے گی ۔ عدالت عالیہ کے ریمارکس کے بعد پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کے ممکنہ انتخاب میں پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے انتخاب بارے توخطرات نظر نہیں آ رہے ہیں لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں جاری اس آئینی بحران کے نتیجہ میں حکومت کا کردار ویسا مؤثر اور مضبوط نظر نہیں آ رہا جیسا کہ پنجاب کی سابقہ حکومتوں کا تھا۔