اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دو آپشنز دیتے ہوئے کہا ہے کہ یا دو دن میں دوبارہ انتخاب پر مان جائیں یا پھر حمزہ شہباز 17 جولائی تک وزیراعلیٰ تسلیم کرلیں۔
سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی لاہورہائیکورٹ کے فیصلے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس جمال خان مندو خیل سماعت کی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ یہی دو آپشن ہیں یا حمزہ کو وزیراعلیٰ تسلیم کرنا ہوگا یا پھرمناسب وقت میں دوبارہ الیکشن ہوگا، پکڑ دھکڑ نہیں ہوگی یہ احکامات ہم جاری کریں گے۔
دوران سماعت اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے کہا کہ حمزہ شہباز کو نگران وزیراعلیٰ رہنا ہے تو اپنا اختیارطے کریں، یہ تو بادشاہ بن جاتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس مسئلے کا قانونی حل نکالیں گے، معلوم ہے کہ ایک دن کا وقت بہت کم ہے، قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو عدالتیں موجود ہیں۔
تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہماری جماعت کا مسلم لیگ ق سے اتحاد ہے، میں پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف سبطین خان کا نمائندہ ہوں، ہم تجویز پر رضامند نہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ پنجاب کے امیدوار ہیں جب انہیں شہباز شریف کے نگران وزیراعلیٰ بننے پر اعتراض نہیں تو پی ٹی آئی کو کیا مسئلہ ہے؟
بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے تو صرف 7 دن مانگے تھے اس طرح آپ کو زیادہ وقت مل رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اپنی درخواست پڑھیں آپ نے استدعا کیا کی ہے؟ بابر اعوان نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کی استدعا بھی کر رکھی ہے، حمزہ شہباز کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتے۔
کیس کی سماعت میں وقفہ فی الحال وقفہ ہے جس کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوگی۔
اس سے قبل چیف جسٹس نے کہا کہ پانچ درخواستیں ہیں کس کی طرف سے کون سا وکیل پیش ہورہا ہے وہ بتائیں، بابر اعوان نے کہا کہ میں درخواست گزار سبطین خان کی طرف سے پیش ہورہا ہوں۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے۔
جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ جس جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے اسکے ایک نکتے پر متفق بھی ہوئے ہیں، سادہ سی بات ہے کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنہوں نے 197 ووٹ لئے ہیں ان میں سے25 ووٹ نکال دیئے ہیں، جب وہ 25 ووٹ نکال دیتے ہیں تودوبارہ گنتی کرائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چار ججز نے یہ کہا ہے کہ پہلے گنتی کرائیں اگر 174 کا نمبر پورا نہیں تو پہر انتخاب کرائیں، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں آپ کے کچھ ممبران چھٹیوں اور حج کا فریضہ ادا کرنے گئے ہیں، ووٹنگ کے دوران جتنے بھی میمبر ایوان میں موجود ہونگے اس پر ووٹنگ ہونی ہے جو کامیاب ہوگا وہ کامیاب قرارپائے گا۔آپ کی درخواست ہے کہ وقت کم دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ میمبران کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست میں یہ بات نہیں ہم آپ کی درخواست کو پڑھ کر آئے ہیں، بنیادی طور پر اپ یہ مانتے نہیں کہ فیصلہ آپ کے حق میں ہوا ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ اصولی طور پر اس فیصلے کو مانتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ چار ججز نے آج کی اور ایک جج نے کل کی تاریخ دی ہے، کیا آپ کل کی تاریخ پر راضی ہیں؟
جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ جو ممبران کہیں گئے ہوئے ہیں وہ 24 اور 48 گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں، بابر اعوان نے استدعا کی کہ ہم الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لیکن لیول پلینگ فیلڈ کے لئے وقت دیا جائے، ہمیں سات دن کا وقت دیا جائے۔
جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ سات دن کا وقت مناسب نہیں، بابر اعوان نے جواب دیا کہ ہم تو دس دن چاھتے تھے۔
جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ آپ بتائیں جو مناسب وقت آپ کو چاہیے، بابر اعوان نے کہا کہ ہماری پانچ مخصوص نشستوں پر خواتین کا نوٹیفیکیشن ہونا ہے اس کو سامنے رکھا جائے۔
عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 7 دن صوبہ وزیر اعلی کے بغیر رہے گا، جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ آئین میں کیا لکھا ہے کہ اگر وزیر اعلی موجود نہ ہوتو صوبہ کون چلائےگا۔