اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ سے استدعا ہے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع دے۔
پی ٹی آئی چیئرمین کے زیرصدارت پارٹی رہنماؤں کا اجلاس ہوا، جس میں عدالتی فیصلے پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اجلاس کے بعد پنجاب کے آئینی بحران پر عمران خان نے پالیسی بیان دیا۔
انہوں نے عدالتی فیصلے پر پاکستانیوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب کو پتا تھا وزیر اعلی’ پنجاب کا الیکشن غیر آئینی تھا، حمزہ شریف کو اتنی دیر وزیر اعلی پنجاف رہنے کوئی حق نہیں تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں وضاحت نہیں ہے، مجھے خوف ہے کہ اگر عدالتی فیصلے کی وضاحت نہ آئی تو پاکستان میں آٗینی بحران مزید بڑھ جائے گا۔
عمران خان نے کہا کہ حمزہ شریف کس قانون کے تحت وزیر اعلی’ رہ سکتا ہے، ہم اس کی وضاحت لینے سپریم کورٹ جا رہے ہیں اور سپریم کورٹ سے اپیل ہے کہ وہ الیکشن پر حکم امتناع دے کیونکہ ہمارے 6 ممبر حج ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔ حمزہ شہباز کو ہوتے ہوئے الیکشن کیسے فئیر ہوسکتے ہیں، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے نے ثابت کیا کہ حمزہ شہباز غیر آئینی وزہراعلی تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف عمران خان کا سپریم کورٹ جانے کا اعلان
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سندھ بلدیاتی الیکشن پر حکومت کے اپنے اتحادی انگلیاں اٹھا رہے ہیں، بلدیاتی الیکشن میں پولیس کو استعمال کیا گیا، پنجاب کے 20 حلقوں کے الیکشن میں مداخلت ہو رہی ہے، مجھے دوامیدواروں نے بتایا کہ انہیں فون آیا آپ نے تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں لینا، جس پارلیمنٹ میں راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر ہو تو سمجھ لے اسمبلی کیا ہو گی؟ لاہورہائی کورٹ فیصلے کے خلاف کل سپریم کورٹ جارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن پرکسی کواعتماد نہیں، جو اس سیٹ اپ کومسلط کر رہا ہے اداروں کو نقصان پہنچا رہا ہے، ایک ہی راستہ ملک میں فری اینڈ فیئرالیکشن کرائے جائیں، سندھ، پنجاب کے الیکشن سے مزید انتشاربڑھے گا، سندھ، پنجاب جیسا نہیں فری اینڈ فیئرالیکشن ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ رجیم چینج کے بعد میڈیا پرپریشرڈالا گیا، پاکستان بننے کی بڑی وجہ لوگ آزادی چاہتے تھے، قائداعظم کی ساری جدوجہد آزادی حاصل کرنا تھی، پاکستان اس لیے نہیں بنا تھا کہ ایک غلامی سے نکل کردوسری غلامی میں آجائیں، ہمارا کلمہ انسان کوآزاد کر دیتا ہے، طاقت ورکواین آراودینے سے قوم تباہ ہوجاتی ہیں۔ غریب ممالک کا مسئلہ طاقتور کو سزا نہیں ملتی، ہر سال غریب ملکوں سے اربوں ڈالر چوری ہوتے ہیں، 7 ہزارارب ڈالرغریب ملکوں کا آف شور کمپنیوں میں پڑا ہوا ہے، لبنان کے لوگ کرپشن کی وجہ سے 70 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے، اللہ نے حکم دیا اپنی نبی ﷺ کی زندگی سے سیکھو، انگلینڈ میں پہلی دفعہ فلاحی ریاست دیکھی، بڑے، بڑے ڈاکوؤں کو1100ارب کی چھوٹ دیدی گئی ہے۔ پاکستان میں ساری سہولیات رولنگ کلاس کو حاصل ہے۔
عمران خان نے کہا کہ سائفرمیں کہا گیا عمران خان کو فارغ نہ کیا تو نتائج بھگتنا ہوں گے، کبھی کسی سیلف ریسپکٹ ملک کو اس طرح کا سائفر نہیں آ سکتا، دھمکی آمیزمراسلہ یہ ملک کی توہین ہے، وزیراعظم تومیں تھا کس کوحکم دیا گیا وزیراعظم کوہٹادو؟ ایکدم عدم اعتماد آگئی اورہمارے اتحادیوں نے کہا حکومت ٹھیک نہیں چل رہی، ایکدم سارے لوٹے بھی بن گئے۔
پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کے کورونا کی وجہ سے پہلے دوسال بڑے مشکل تھے، اپوزیشن نے 3 ماہ لاک ڈاؤن لگانے کا پریشرڈالا نہیں لگایا، ہماری حکومت کے دوسال بڑے مشکل تھے، سترہ سال بعد ہماری حکومت میں مستحکم گروتھ ہوئی۔ زراعت، کنسٹرکشن سیکٹر میں ریکارڈ گروتھ ہوئی۔ پاکستان کی 6 فیصد گروتھ ہو رہی تھی، شکر ہے اسمبلی میں ان کے منہ سے نکل گیا ہے کہ کدھرسے فون آ رہے تھے، لوٹے امریکی سفیرسے ملاقاتیں کرتے رہے، اسی لیے چاہتا ہوں جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے، جوڈیشل انکوائری ہوگی تو پاکستان کوفائدہ ہوگا تاکہ آئندہ غلطیوں کو نہ دہرایا جائے، میں نے اور شوکت ترین نے بھی نیوٹرل کوبتایا ملک میں عدم استحکام نہیں آنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ نیوٹرل ہونا بڑی اچھی چیزہے، ماشااللہ آپ نیوٹرل ہی رہیں، ہم نے بتادیا تھا کہ اگر سازش کامیاب ہوگی تو حالات خراب ہوں گے، شروع دن سے کہا تھا یہ سب اکٹھے ہوں گے، مجھ سے این آر او لینے کے لیے بلیک میل کیا گیا، ایک سال سے پلان چل رہا تھا، میرا ذہن نہیں مان رہا تھا کہ شہبازشریف، زرداری اقتدار میں پھرسے آ جائیں گے، تیس سال سے یہ دو خاندان ملک پر مسلط ہے، عالمی میڈیا نے ان کی کرپشن پر آرٹیکل، ڈاکیو منٹری بنائیں، پرویز مشرف نے ان کواین آر او دیا میں نے احتجاج کیا تھا، نوازشریف کا حدیبیہ پیپر مل کا اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، این آراوون میں ان کی ساری کرپشن معاف کردی گئی، میری حکومت میں صرف مقصود چپڑاسی والا کیس بنا باقی توسارے پرانے کیسزتھے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو سزا ہونے والی تھی، ان کیسے کوئی آدمی اس کو اس ملک پر مسلط کر سکتا تھا، شائد وہ اس کوبڑا جنئس سمجھ رہے تھے کہ صبح جلدی اٹھتا ہے اور ملک کو بہتر کر لے گا، شہبازشریف نے اشتہارات میں 50 ارب خرچ کیا تھا، شائد وہ غلطی فہمی میں تھے شائد ٹرن آؤٹ کر جائے گا، حکومت کے اکنامک سروے کے مطابق ہماری حکومت میں ترقی ہو رہی تھی، ہماری حکومت میں ریکارڈ ایکسپورٹ ہوئی۔ آج مہنگائی آسمانوں پر اور ملک نیچے جا رہا ہے کون ذمہ دارہے؟ صدرمملکت نے سپریم کورٹ کو سائفربھیجا ہے کہ اوپن انکوائری کریں تاکہ ذمہ داروں کا پتا توچلے، 25سال بعد حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ آئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی خلاف جنگ میں 80 ہزارپاکستانی مرگئے، آج بھی ہمارے فوجی قربانیاں دے رہے ہیں، ہم نے کیوں امریکا کی جنگ میں شرکت کی، سب سے زیادہ مغربی سوچ کوسمجھتا ہوں، عالمی دنیا میں کوئی دوستی نہیں اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اتنی بڑی قربانی دی، کیا کبھی امریکا نے ہماری اتبی بڑی قربانی کو سراہا، رجیم چینج کے بینشفری نہیں چاہتے سائفرکی انکوائری ہو، امریکا کو کرپٹ لوگ سوٹ کرتے ہیں، امریکا جیسے ملک میں کسی کرپٹ کو چپڑاسی بھی نہیں رکھا جاسکتا، امریکا کوپتا ہے کرپٹ لوگ کنٹرولڈ ہوتے ہیں۔
عمران خان نے کہاکہ اگراس طرح کے چوروں کو اقتدارمیں بٹھانا ہے تو پاکستان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں، ہماری حکومت بھی آئی ایم ایف پروگرام میں تھی ہمارے اوپر بھی پریشرتھا، اگر ہم ہی ذمہ دارتھے تو اتنی محنت کر کے کیوں ہٹایا، چوروں کا ٹولہ ملک کے اداروں کو تباہ کر رہا ہے، ان کی وجہ سے رول آف لا تباہ ہورہا ہے، کرپٹ لوگوں نے اسمبلی میں اپنے 1100 ارب کے کیسز معاف کرا لیے، ہم سپریم کورٹ گئے ہوئے ہیں، نیب ترامیم کے بعد اب نیب کچھ نہیں کرسکتا۔ نیب ترامیم کے بعد وائٹ کالر کرائم کو پکڑنا ناممکن ہوگا۔
چیئر مین پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ لوگ اقتدارمیں اپنی کرپشن بچانے سے آئے تھے، نوازشریف دورہ بھارت گیا تو حریت رہنماؤں سے ملاقات ہی نہیں کی تھی، یہ کرپٹ لوگ ہے ان کا کوئی نظریہ نہیں ہے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، اگراسی طرح کمپرؤمائز ہی کرنا تھا تو پھر پاکستان کیوں بنا، تیس سال سے یہ خاندان حکمرانی کر رہے ہیں، دونوں جماعتوں کے دور میں 400 ڈرون حملے ہوئے یہ چپ کر کے بیٹھے تھے، ملک کی اکثریت ابھی بھی قائداعظم کے نظریے پراعتماد کرتی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے بھی بات کی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے زندگی میں بڑی غلطیاں کیں، ملک قانون کی پابندی یعنی رول آف لاء پر چلتا ہے مگر میں ترجیحات کا تعین کرتا تھا کہ پہلے کن مسائل کو حل کرنا ہے۔
سینئر صحافی ایاز امیر کو مخاطب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آپ بات ٹھیک کر رہے ہیں لیکن میں تمام مسائل کو ایک ساتھ حل نہیں کر سکتا تھا، پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ہم بہت سی چیزیں دُرُست کر سکتے تھے۔ عام سے آدمی ہیں، زندگی میں بڑی غلطیاں کیں، لیکن کرکٹ میں کامیابی کی وجہ یہ رہی کہ غلطیوں کا تجزیہ کر کے ان کی اصلاح کی۔