اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ اتحادی جماعتوں کے متفقہ فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ فل بنچ تشکیل نہیں دیا جاتا تو ہم عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے ، حمزہ شہباز فریق نہیں بنیں گے ، ہماری یہ استدعا ہے کہ نظر ثانی درخواست اور متعلقہ درخواستوں کو یکجا کر کے سناجائے جو ایم پی ایز ڈی سیٹ ہوئے ان کی درخواستیں بھی سنیں جائیں ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر وفاقی وزیر قانون وانصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ اور ن لیگ کے رہنما عطا تارڑ بھی موجود تھے۔
رانا ثنااللہ خان نے کہا کہ پریس کانفرنس کے ذریعے معزز عدالت عظمی، بنچ کے جج صاحبان سے یہ استدعا کی ہے وزیراعلی پنجاب کے انتخاب بارے جو تنازعہ اٹھا ہے اس کو فل کورٹ بینچ سنے، ہم سمجھتے ہیں اس سے عدالت کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوگا ، ایسے جج صاحبان جو مسلم لیگ ن کے خلاف مانیٹری جج کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں اور ان بینچز میں بھی شامل رہے ہیں جس میں نواز شریف کو سزا بھی دی گئی ۔
انہوں نے کہا کہ 63 اے کا فیصلہ جو ان پراسیس ہے اس میں ووٹ ڈالنے اور گنتی میں شمار نہ کرنے کی بات کی ہےجب کہ آئین میں ووٹ ڈالنے ،الیکشن کمیشن کا فیصلہ شامل ہونے کی سکیم شامل ہے ، تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ 2 فاضل ججز کا بھی یہ فیصلہ ہے کہ یہ آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے ۔ ہماری یہ استدعا ہے کہ نظر ثانی درخواست اور متعلقہ درخواستوں کو یکجا کر کے سناجائے جو ایم پی ایز ڈی سیٹ ہوئے ان کی درخواستیں بھی سنیں جائیں ۔
وفاقی وزیر داخلہ اب بھی ایک پارٹی ہیڈ کی ہدایت ہے جس کی بنا پر ووٹ کا شمار نہیں ہوا ، اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا تو کیا ہوگا ، ہماری استدعا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دی جائے اس سے تمام سیاسی جماعتوں ، عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا ۔ 2015 میں بھی لارجر بنیچ کا فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہے ،فل بینچ بننے سے تمام امور ہمیشہ کے لئے حل ہوجائیں گے ۔ ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ اگر فل بنچ تشکیل نہیں دیا جاتا تو ہم عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے ، حمزہ شہباز فریق نہیں بنیں گے ، یہ کوئی دھمکی نہیں ہے، تینوں فیصلوں میں پیچیدگیاں چلتی رہتیں ہیں تو عدالت عظمی کے وقار میں اضافہ ہوگا یا نہیں
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی چوہدری پرویز الہی کو وزیراعلی بننے کی پیشکش کی تھی ،چوہدری شجاعت بھی موجود تھے اور مٹھائی لیکر آئے تھے ۔مسلم لیگ ق کے صدر کی ہدایت پر دو اراکین قومی اسمبلی وفاق میں اتحادی حکومت کے ساتھ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن والے دن ق لیگ کے اراکین پریشانی میں مبتلا تھے ،وہ ووٹ کاسٹ نہیں کرنا چاہتے تھے ۔
وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ راولپنڈی بار کی آرمی ایکٹ کے حوالے سے درخواست میں بھی فل بینچ کی استدعا کی تھی ، اس میں چیف جسٹس عظمت سعید کھوسہ سمیت 8 ججز نے واضح طور پر لکھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد 63 اے میں پارٹی ہیڈ کو بااختیار بنایا گیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو سزا سنا دی تھی تو ذوالفقار بھٹہ نے بھی پٹیشن دائر کی کہ پولٹیکل پارٹی ایکٹ تبدیل ہونا چاہیے ، پانچ جج صاحبان نے کہا کہ پارٹی میں سب سے مضبوط رتبہ پارٹی سربراہ ہوتا ہے ، پارٹی سربراہ ہی ہر طرح کی ہدایت دیتا ہے ، اگر سپریم کورٹ بار کی نظر ثانی درخواست پر سماعت ہوتی ہے تو سب کچھ ریورس ہوجائے گا ، اس لئے استدعا کر رہے ہیں سب کو یکجا کر کے سنیں ،آج سپریم کورٹ کے 7 سابق صدور پیش ہوئے اور کہا کہ عدالت عظمی کے وقار میں اضافہ ہوگا اگر فل کورٹ بنا کر ووٹ ڈالنے اور گننے بارے ایک بار پھر غور کیا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد والا بنچ مکمل ہوا ہے ۔ مسلم لیگ ن کے راہنما عطا تارڑ نے کہا کہ اگر پارٹی سربراہ کی ہدایت نہیں ہے تو 25 ڈی سیٹ ہونے والے اراکین بحال ہوتے ہیں تو حمزہ شہباز کے انتخاب کا معاملہ ختم ہوجاتا ہے، یوسف رضا گیلانی کے 7 ووٹ پرئیذائڈنگ آفسر نے ووٹ مسترد کیے ہیں ، یہ معاملہ بھی الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے اس کا بھی جلد فیصلہ آنا چاہیے ۔