لاہور: (ویب ڈیسک) وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زردای نے کہا ہے کہ بھارت ہمارا ہمسایہ ہے، بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا۔ ستمبر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کا کوئی پلان نہیں ہے
بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ ہمارے لیے یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ہم شنگھائی تعاون تنظیم فیملی کا حصہ ہیں۔ کورونا کے بعد ستمبر میں ایس سی او سمٹ کی تیاریوں کے حوالے سے ہم سب پہلی مرتبہ ذاتی طور پر ملے ہیں۔ یہ نہ صرف ایس سی او رابطوں بلکہ ہماری دیگر سرگرمیوں میں بھی انتہائی مثبت تجربہ رہا ہےجبکہ ہم نے بہت سے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس کے موقع پر ایس سی او ممالک کے وزرائے خارجہ سے سائیڈ لائن ملاقاتیں کیں ہیں اور وسطی ایشیائی ممالک اور چین کے وزرائے خارجہ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اور اس موقع پر مجھے روسی وزیر خارجہ سے تفصیلی بات چیت کا موقع ملا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ دورہ ناقابل یقین حد تک کامیاب رہا، ستمبر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کا کوئی منصوبہ (پلان) نہیں ہے۔ ایس سی او وزرائے خارجہ کونسل سرگرمیوں میں پاکستان اور بھارت دونوں شامل رہے تاہم بھارتی وزیر خارجہ سے کسی قسم کی کوئی باہمی ملاقات نہیں ہوئی۔
بلاول کا کہنا تھا کہ بھارت ہمارا ہمسایہ ہے اور ہم زندگی میں بہت کچھ چن سکتے ہیں تاہم ہمسائے نہیں چن سکتے، ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا۔ بدقسمتی سے اگست 2019 کے واقعات ، اسلامو فوبیا پر بھارتی حکمران جماعت کے قائدین کے بیانات ہمارے لیے بھارت کے ساتھ مثبت رابطوں کو انتہائی مشکل بنا رہے ہیں۔
— PPP (@MediaCellPPP) July 30, 2022
انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے الزامات میں صداقت نہیں ہے، ہماری خارجہ پالیسی انگیجمنٹ پر مبنی ہے، ہم تمام ممالک سے انگیج کر رہے ہیں تاکہ اپنے عوام کے لیے اقتصادی مواقع تلاش کر سکیں۔ ہم مشرق اور مغرب میں تمام ممالک سے اقتصادی تعاون کے فروغ کے لیے کوشیش کر رہے ہیں ، یقینی طور پر ہم امریکا سے بھی انگیج کریں گے۔
بلاول کا کہنا تھا کہ عمران خان جب اقتدار میں تھے انہوں نے بھی یہی کیا، انہوں نے بھی تمام ممالک بشمول امریکا سے انگیج کرنے کی کوششیں کی لیکن اگر وہ ناکام ہوئے تو یہ ہماری غلطی نہیں ہے۔ جہاں تک اقتصادی صورتحال ک تعلق ہے تو ہر پاکستانی یہ جانتا ہے کہ موجودہ اقتصادی چیلنجز گزشتہ 3 ماہ میں پیدا نہیں ہوئے، یہ چیلنجز خان صاحب کی گزشتہ 4 برس پر محیط حکومت میں پیدا ہوئے۔
وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ عمران خان نے 2018 سے 2022 تک جتنے قرضے لئے وہ مجموعی طور پر پاکستان کی تاریخ کے تمام قرضوں کے برابر ہیں۔ کوئی بھی یقین نہیں کر سکتا کہ ان طویل اقتصادی چیلنجز کو تین ماہ میں حل کیا جاسکتا ہے، تاہم خارجہ پالیسی کے محاذ پر میں اور میری ٹیم کثیر الجہتی چیلنجز کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔
پنجاب میں ضمنی الیکشن کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ضمنی الیکشن میں نتائج آنا ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے۔ یہ تمام سیٹیں اپوزیشن جماعت کی تھیں، اس الیکشن میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے پانچ سیٹیں جیتیں اور اپوزیشن جماعت نے 15 سیٹیں اپنے نام کیں، میں سمجھ سکتا ہوں، ہر کوئی اس نتائج سے آگاہ ہے، اس وقت معاشی صورتحال پر پاکستانی سمیت تمام لوگ تشویش کا شکار ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران حکومت معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، گزشتہ چار سال کے دوران عمران خان کی حکومت میں معاشی تباہ ہوئی۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں بہتری کے لیے میں اور میری ٹیم بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔