عدلیہ کا کام تشریح کرنا، ترمیم لانا نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا 3 جج آئین تبدیل کردیں: بلاول

Published On 27 July,2022 08:34 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہاہے کہ ایسے نہیں ہوسکتا ہمارے لیے ایک اورلاڈلے کے لیے دوسرا آئین ہو، ہمارا کام آئین بنانا اورعدلیہ کا کام تشریح کرنا ہے، خود ترمیم لانا نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا تین جج آئین تبدیل کردیں۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنادی جائے جس میں ہم قانون سازی کریں گے، ہم فیصلہ کریں گے کتنے ججز کو بنچ میں بیٹھنا چاہیے، اگراسپیکرکی رولنگ پرفیصلہ سنانا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ مگر پورے ججز کو بٹھانا ہو گا۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ کل سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ سنایا جس میں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ، وزیراعلیٰ کے عہدے، انتظامی اور سیاسی امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے ایکس وائی زیڈ کے نام اور اداروں کو دھمکی دیئے بغیر اتنی گزارش کی تھی کہ چونکہ ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے کے بارے میں فیصلہ کر رہا ہے تو پورا ادارہ یعنی فل کورٹ بنایا جائے اور جو بھی فیصلہ آئے گا تو ہم قبول کریں گے، ہمارا یہ مطالبہ صرف وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لئے نہیں تھا ، جب گزشتہ حکومت کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے آئین توڑا تو اس وقت بھی ہمارا یہ مطالبہ تھا کہ یہ آئین اور جمہوریت کے مستقبل کا سوال ہے اس لئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے لیکن اس وقت بھی ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ اب فل کورٹ تشکیل دی گئی۔

 انہوں نے کہا کہ فل کورٹ کا ہمارا مطالبہ جائز اور آئین کے مطابق تھا، آئین کی روح سے اعلیٰ عدلیہ آئین پاکستان کی تشریح کا ذمہ دار ہے۔ 1973ء کے آئین کی تشکیل میں ہمیں تیس سال لگے، ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر آئین سازی کا عمل مکمل کیا، جب اس آئین کو توڑا گیا تو اس میں سارے ادارے شامل تھے، جس کی بحالی میں ہمیں 30 سال لگے۔ بے نظیر بھٹو نے 30 سال آئین کی بحالی کی جدوجہد کی اور اس راہ میں شہادت قبول کی۔ ہمیں فخر ہے 2008ء سے لے کر 2013ء تک قومی اسمبلی نے 1973ء کے آئین کو بحال کیا۔ کالی شقیں اور آمر کے ڈالے ہوئے قوانین کو اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں آئین سے نکالا گیا۔

بلاول نے کہا کہ آئین میں ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، لاکھوں ووٹروں سے ایک ممبر قومی اسمبلی بنتا ہے، کروڑوں لوگ مل کر آئین میں ایک کوما اور فل سٹاپ تبدیل کرتے ہیں۔ ہم نے صدر پاکستان سے بھی آمرانہ اختیارات سلب کرلئے اور وہ اختیارات پارلیمان کو منتقل کئے۔ ماضی میں صدر اٹھاون ٹو بی کے مطابق حکومت کو گھر بھیج سکتا تھا، ہم نے میثاق جمہوریت کیا تاکہ ادارے آزاد ہوں، سپریم کورٹ آزاد ہو اور عوام آزادی کے ساتھ بول سکے۔ میڈیا کی آزادی ہو ۔ 2008ء سے لے کر 2013ء تک جب ہم دہشتگردی کے خلاف اور معیشت اور جمہوریت سے متعلق مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کر رہے تھے تو یہ عوام کے مینڈیٹ اور پارلیمان پر حملے کرتے رہے، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری جن کی بحالی کے لئے گوجرخان سے لے کر کراچی تک ہمارے جیالوں نے جدوجہد کی اور گولیوں کا سامنا کیا، کسی کے ہاتھوں میں آکر پارلیمان اور حکومت کے خلاف آئین اور قانون سے ماورا فیصلے دیئے، ہمارے وزیراعظم اور حکومت وقت نے عدالتوں پر کوئی حملہ نہیں کیا، ہم اپنی راہ پر چلتے رہے، ہم نے اپنی مدت مکمل کی اور پرامن انتقال اقتدار کو ممکن بنایا، اس دوران آلو اور سموسے کی قیمتوں کے فیصلے کورٹ روم نمبر ون میں ہو رہے تھے،

وزیر خارجہ نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو اور سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے، اس میں ہم نے عدالتی اصلاحات کا وعدہ کیا تھا، ہم نے ایک آئینی عدالت بنانا تھی، ہم چاہتے تھے کہ کسی جج کا حق نہیں کہ وہ اپنے بھائی اور رشتہ دار کو اعلیٰ عدلیہ میں شامل کر سکیں۔ ہم نے ہائوس کو اختیار دیا کہ اس عمل میں بار کونسلز اور پارلیمان سمیت سب کی نمائندگی ہو لیکن اس وقت اسی ہائوس ، وزیراعظم اور وزیر قانون کو دھمکی دی گئی کہ اگر آپ نے ایسا کیا اور 19ویں ترمیم کو پاس نہ کیا تو ہم 18ویں ترمیم کو اڑا دیں گے، یہ ہماری غلطی تھی کہ ہم اس دھمکی میں آگئے، ہمیں 19ویں آئینی ترمیم کی منظوری نہیں دینی چاہیے تھی اور عدالت کو بتانا چاہیے تھا کہ یہ آئین پاکستان ہے، اگر آپ کو یہ منظور نہیں ہے تو آپ گھر چلے جائو، آئین پاکستان اور جمہوریت کے لئے ہماری جماعتوں نے جدوجہد کی ہے، اس وقت کی اپوزیشن عدالتی فعالیت پر خوش تھی لیکن جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہیں معلوم ہوا کہ فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے، عوام کی رائے یہ ہے کہ اس وقت عدلیہ کا کردار آئین کے مطابق نہیں تھا، اس وقت کی عدلیہ نے دو تہائی اکثریت کے وزیراعظم کو گھر بھیجا، پارٹی صدارت کا اختیار پارٹی سے لیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے سینیٹروں کو آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے دیا گیا، 2018ء کے عام انتخابات میں چند ججوں نے جو کردار ادا کیا ہے اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں ثاقب نثار ہمارے خلاف مہم چلاتا رہا، وہ کبھی لاڑکانہ میں جج کو تھپڑ مارتا اور کبھی کراچی میں تقاریر کرتا، فیصل صالح حیات کے انتخاب میں ری پولنگ ہو رہی تھی، چیف جسٹس مخالف امیدوار کے پاس پہنچتا ہے اور وہ ریٹرننگ افسر کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کے خلاف فیصلہ کرے۔ ایک ریٹرننگ افسر سپریم کورٹ کے جج کے سامنے کیا کہہ سکتا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ 2018ء سے اپریل 2022ء تک ادارے کا کردار آئینی نہیں بلکہ ایک سلیکٹڈ نظام کو بچانے کے لئے تھا، ہمارے ادارے آئینی نہیں بلکہ متنازعہ کردار ادا کرتے رہے، ہم چاہتے ہیں کہ ادارے آئینی کردار ادا کریں۔ آئینی اداروں کا کردار متنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے معاملے میں فل کورٹ کا مطالبہ کیا، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں تھا کہ حمزہ وزیراعلیٰ ہو یا پرویز الہی وزیراعلیٰ بنیں لیکن ایک پاکستان میں دو پاکستان نہیں چل سکتے۔ ایسے نہیں ہو سکتا کہ ایک فیصلے میں آپ پارٹی لیڈر کے کہنے پر ووٹ ڈالنے کو جائز قرار دیں اور پھر ایک ماہ کے بعد وہی عدالت اس کیس میں فیصلہ سنائے کہ پارلیمانی لیڈر کا فیصلہ قبول ہوگا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ملک میں دو آئین بیک وقت چلیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمان کے کردار کو تحفظ دیا جائے، عدلیہ کا کام یہ نہیں کہ وہ آئین میں ترمیم کرے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم برسوں جدوجہد کریں اور تین ججز قلم کی نوک سے آئین پاکستان کو تبدیل کریں، اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو پاکستان میں جمہوریت کا سفر نامکمل ہوگا۔ عدالتی اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ جس طرح عدلیہ نے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ حکومت کا مطلب وزیراعظم نہیں بلکہ وزیراعظم اور کابینہ ہے، اسی طرح سپریم کورٹ کا مطلب صرف چیف جسٹس آف پاکستان نہیں بلکہ تمام برادر اور محترم ججز صاحبان ہیں۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہو، وہ قانون سازی کرے اور وہ اس بات کا تعین کرے کہ کسی مقدمے میں کتنے ججز کو فیصلہ کرنا ہوگا، ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ ججز کے چنائو، سو موٹو اور اپیلوں میں اتفاق کے مطابق فیصلے ہوں۔ عدالتی اصلاحات میثاق جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ سپیکر سے میرا اور پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ وہ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائیں کیونکہ یہ پوری قوم کا ایشو ہے۔

بلاول نے کہا کہ ایک رات کی نیوٹریلٹی سے 70 سال کے گناہ معاف نہیں ہوتے، پاکستان کے عوام کیا 70سال کی آئین شکنی کو معاف کریں گے، کیا یہ ممکن ہے کہ چار سال میں جو معاشی، جمہوری، معاشرتی اور خارجہ پالیسی کے بحرانوں سے قوم کو دوچار کیا گیا وہ شہباز شریف تین ماہ میں حل کرے، کیا ان کے پاس جادو کی چھڑی ہے، پاکستان کے عوام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم ان سے سچ بولیں گے۔ گزشتہ چار برسوں میں عمران خان نے ریکارڈ قرضے لئے، اس نے معاشرے اور معیشت کو تباہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم سب کو مل کر دلیری سے یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ جو گند چار سال میں پڑا وہ تین ماہ میں صاف نہیں ہو سکتا۔ اگر پارلیمنٹ یہ کام نہیں کر سکتی تو پھر وقت ضائع کرنے کی بجائے تالہ لگا دیا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ آئین اور جمہوریت کا دفاع کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ سپیکر کمیٹی بنائیں ہم اس کا حصہ بننے کے لئے تیار ہیں، ایک ملک میں دو آئین نہیں چلیں گے۔ 

عدلیہ کا دہرا معیار نہیں ہونا چاہیے،انصاف کے بغیر ملک آگے نہیں چل سکتا:وزیراعظم

قومی اسمبلی کے اجلاس میں سیلاب سے متعلق خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ طوفانی بارشوں نے ہرجگہ تباہی پھیلائی، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ میں بے پناہ تباہی ہوئی، پاکستان بھرمیں طوفانی بارشوں سے نقصانات ہوئے، اتحادی حکومت پوری طرح آگاہ اورچوکس ہے، اس حوالے سے چاروں صوبوں کے ساتھ میٹنگ کرچکا ہوں، متاثرہ علاقوں میں بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب حکومت دن رات کام کررہی ہے، این ڈی ایم اے بھی اس حوالے سے بھرپورکام کررہی ہے، یقین دلاتا ہوں امدادی پیکج میں مزید اضافہ کریں گے۔ معززممبران کی سفارشات کے پیش نظر کل مزید فیصلے کریں گے، صوبائی حکومتوں کی ہرممکن مدد کریں گے، کسانوں کے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے وفاقی حکومت بھرپورتعاون کرے گی، چترال سمیت جہاں بھی نقصانات ہوئے ازالہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی فطرت ہے بچے کو تکلیف ہو تو بچہ فوری ماں کے پاس جاتا ہے، یہ معززایوان ماں ہے، 1973ء کے آئین کو اسی ایوان نے تشکیل کی تھی، جس میں پورے پاکستان کی منتخب لیڈرشپ شامل تھی، اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی لیڈرشپ میں پاکستان بھر سے منتخب اراکین نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ اس آئین کی تشکیل کی، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ آئین پاکستان کی واحدت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ بدترین وقتوں میں بھی اسی آئین نے پوری دنیا کے سامنے مضبوط و متحد ملک کے طور پر پیش کیا، یہی آئین صدیوں تک پاکستان کی رہنمائی کرتا رہے گا، پاکستان کو مضبوط کرتا رہے گا۔

 وزیراعظم نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، 22 کروڑعوام نے منتخب نمائندوں کو اختیاردیا ہے، آئین میں مقننہ،عدلیہ،انتظامیہ کے اختیارات متعین کردیئے ہیں۔ آئین کے اندر رہ کر سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، 75سالوں کے دوران آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا، مارشل لا کئی دہائیوں تک مسلط رہے اورپاکستان دولخت بھی ہوا، جمہوریت کا پودا اتنا طاقت ورنہ ہوسکا جتنا ہونا چاہیے تھا، جوممالک ہم سے بہت پیچھے تھے آج ترقی کی دوڑمیں آگے نکل چکے ہیں، اغیار نے کئی سال پہلے آئی ایم ایف کو خیرآباد کہہ دیا، بزرگ، مائیں، بیٹیاں پوچھتی ہیں ملک کے اندر کب مہنگائی،غربت، قرضوں کا خاتمہ ہوگا۔

شہباز شریف نے کہا کہ سب جانتے ہیں 2018ء کے الیکشن میں بدترین جھرلو الیکشن تھے، دھاندلی کی پیداوار حکومت کو مسلط کر دیا گیا، رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس بند ہوگیا تھا، دیہات میں پہلے اور شہروں میں نتائج بعد میں آئے تھے، سابق چیف جسٹس کے حکم پر گنتی کو رکوایا گیا تھا، گزشتہ پونے چار سالوں میں مسلط کردہ حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، 20 ہزار ارب سے زائد کے قرضے لیے گئے۔ پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکل رہا تھا، اگر متحدہ اپوزیشن سیاست کو مقدم رکھتی تو پھرریاست کا خدا حافظ تھا، ہم سب نے ملکر ریاست کو بچانے کا فیصلہ کیا تھا، اگر سیاست کو بچاتے تو ریاست صحفہ ہستی سے مٹ جاتی، ہم جانتے تھے پاکستان ڈیفالٹ کے قریب ہے، ہم جانتے تھے معیشت کوواپس زندگی دلانا آسان کام نہیں۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نےکہا کہ کیا ہم چوردروازے سے آئے؟ یہ پہلا موقع تھا کسی نے وزیراعظم آفس پر چڑھائی نہیں کی، ڈنکے کی چوٹ پرکہتا ہوں کوئی کنفوژن نہیں، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، خالد مقبول صدیقی نے ملکر اور میرے قائد نے مجھے منتخب کیا، جانتا تھا یہ عہدہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا سفرہے، 1992ء میں سابق صدر نے مجھے وزیراعظم بننے کی آفر کی تھی، جنرل مشرف نے بھی مجھے وزیراعظم بننے کی آفرکی تھی، میرے سینے میں ایسے راز ہیں جو نہیں اگلوں گا، مجھے وزیراعظم بننے کے کئی مواقع ملے، نوازشریف کو جب اقامہ میں ناجائز سزا دی گئی تو نوازشریف نے مجھے چنا تھا، سب آتے ہیں اپنی اننگز کھیل کر چلے جاتے ہیں، یہاں کوئی سکندر نہیں، دنیا فانی ہے، ماضی میں غیرقانونی آفرزکوٹھکرایا تھا۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں کوئی تمغہ سجائے نہیں بیٹھا، رات کو بھی نیند نہیں آتی، 75 سال گزر گئے ابھی تک ہم نے اپنا راستہ متعین نہیں کیا، عدلیہ کا میرے دل میں بڑا احترام ہے، اگر حق اور سچ کی بات آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے، سابق چیف جسٹس دن رات سوموٹو لیتے تھے، مجھے عدالت بلاتی تھی تو احترام کے ساتھ جاتے تھے، اگرآپ نے فیصلہ کرنا ہے تو پھر انصاف اورحق کی بنیاد پر کرنا ہو گا، یہ نہیں ہوسکتا میرے ساتھ اوردوسروں کے ساتھ اورسلوک کریں، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ حکومت میں سب سے زیادہ کرپشن بڑھی تھی۔

وزیراعظم نےکہا کہ دوست ممالک کو ناراض کر دیا گیا، یہ کہتے ہیں امپورٹڈ حکومت ہے، جب امریکی صدر سے ملاقات کر کے آیا تو کہتا تھا ایک اور ورلڈکپ جیت کرآیا ہوں، آج تمام ممالک سے تعلقات خراب کر دیئے، انہوں نے کہا روس نے سستا تیل دینے کی آفردی، روس نے کہا انہوں نے کوئی آفرنہیں دی۔ اس وقت تین ملین ٹن گندم شارٹ ہے، سیکرٹری خارجہ سے کہا روس اگر سستی گندم دے رہا ہے تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے، جب ہم گندم خرید چکے تو پرسوں روس سے آفر آئی ہے، وہ دن میرے لیے مر جانے کا دن ہو جو مجھ پر بیرونی ایجنٹ کا الزام لگائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کر رہے، کیس کو 8 سال ہو گئے ہیں، فارن فنڈنگ کا پیسہ اسرائیل، بھارت سے میں نے نہیں منگوایا، کیا کسی نے سوموٹونوٹس لیا؟ پونے چارسالوں میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، اوچھے ہتھکنڈوں کا مقصد اپوزیشن کو دیوارسے لگانا تھا، اگررازکھول دوں تو ایوان حیرت میں آجائے گا، پونے چارسال چور، ڈاکو کا راگ آلاپتا رہا، ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کرسکا۔ آج دل کی باتیں کرنا چاہتا ہوں، ایک خطا کارانسان ہوں، کوشش کرونگا سچ بات کروں، قوم سے کہا تھا کوئی جھوٹ نہیں بولوں گا، اس لیے آج بات کر رہا ہوں، دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے، ان کے دورمیں چینی پراربوں کی سبسڈی دی گئی۔ گزشتہ دورمیں دونوں ہاتھوں سے قوم کولوٹا گیا، چینی کی قیمت 110روپے کلو تک جاپہنچی تھی، جس طرح روم جل رہا تھا تو نیورو بانسری بجا رہا تھا، ان کوکوئی پرواہ نہیں تھی، انہوں نے خود آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اورخود دھجیاں اڑائیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ بات نکلی ہے تو بہت دور تک جائے گی، بی آرٹی پشاورمیں اربوں کے غبن ہوئے، کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، ہیلی کاپٹرکیس میں کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، مالم جبہ کیس پرکسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا اس کو نیب نے جھپا ڈال لیا۔ مونس الہیٰ کا کیس نیب نے بند کردیا، کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں گرفتارکی گئیں، کسی نے نوٹس لیا، سابق وزیراعظم کی بہن کو خاموشی سے این آر او دیا گیا کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، کفرکا نظام زندہ رہ سکتا ہے بے انصافی کا نہیں، 75سال گزرگئے آج بھی ہم اسی دائرے میں ہیں۔

وزیراعظم کا کہناتھا کہ ہٹلر کی مثال آج پاکستان میں بہت حد تک ہٹلر نے انتخاب میں 33 فیصد ووٹ لیے تھے، ہٹلرنے دن رات جھوٹ بولا لوگ سچ سمجھنا شروع ہوگئے تھے، نیتجہ کیا نکلا جنگ دوئم میں جرمنی کوصحفہ ہستی سے مٹادیا گیا، رب کوگواہ بنا کرکہتا ہوں سچ کوسچ اورجھوٹ کوجھوٹ کہنا ہوگا ورنہ پاکستان شدید مشکلات میں گرجائے گا، آج بھی وقت ہے ہم حالات کو کنٹرول کرلیں، لاڈلے کو 15سال دن رات دودھ پلا کرلایا گیا، ادارے دن رات اس کے لیے کام کرتے تھے سوچتے ہیں تو عقل حیران ہوتی ہے، 75سال میں ایسی سپورٹ کسی کو نہیں ملی نہ کسی کوملے گی، آج مجھے کہا جاتا ہے 3 ماہ میں مہنگائی بڑھ گئی، بالکل بڑھی ہے، تیل کی قیمتیں میرے اختیارمیں نہیں، مجھے لوگ خادم اور ڈیلیوری کا ماسٹرکہتے ہیں، ایک طرف دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں اور معیشت کو ڈبو دیا گیا، ہم سب مل کر اس کشتی کو کنارے لگانے کی کوشش کررہے ہیں، دن رات بیان دیا جاتا ہے پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے، یہ وہ عناد پرست ہے جوکہتا ہے وہ ہے توٹھیک ورنہ پاکستان کے تین ٹکڑے ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ساڑھے تین ماہ ہوگئے،ایک دھیلے کی کرپشن کا الزام نہیں لگا، تیل اورگیس کی قیمتوں کا اختیارمیرے پاس نہیں، جب گیس کی 3 ڈالرتھی توانہوں نے نہیں خریدی، کیا کسی نے نوٹس لیا، دھرنے کے دوران کس نے کہا تھا بجلی بلوں کو آگ لگا دو، کسی نے نوٹس نہیں لیا تھا، اگر شیخ مجیب الرحمان مرحوم ہار جاتا تو غدار کہلاتا، جیت گیا تو ہیروبن گیا، ایک پارٹی کا لیڈر کہتا ہے بجلی کے بل جلا دو، ٹیکس مت دو کسی نے نوٹس نہیں لیا، چینی صدرکے دورے کے دوران منتیں کیں اٹھ جاؤ قیامت نہیں آجائے گی، چینی صدرکا دورہ موخرہونے سے پاکستان کا نقصان ہوا، اس وقت کسی نے نوٹس نہیں لیا تھا، کیا دہرا معیارچل سکتا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی اور عمران نیازی نے اسمبلی توڑنے کی کوشش کی، مارچ میں آئین شکنی پر ان کو تو کسی نے نہیں بلایا، اگر اسی طرح معاملات چلتے رہے تو قائد کی روح ہمیشہ کے لیے تڑپتی رہے گی، لاکھوں لوگوں نے اس لیے قربانیاں نہیں دی تھی، اگر ملک کے اندر قانون، آئین اور انصاف کو آگے نہ بڑھایا تو پھر تاریخ میں کوئی یاد نہیں رکھے گا، بشیرمیمن نے کہا اسے عمران نیازی نے کیسز بنانے کا کہا، بشیر میمن نے کیسز بنانے سے انکار کیا کیا کسی نے نوٹس لیا؟ عمران نیازی کے دورمیں ہماری ضمانتیں میرٹ پرہوئی، برطانیہ این سی اے کو شہزاد اکبر نے خط لکھا پونے دوسال انکوائری ہوئی، اللہ نے کرم کیا ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ 22 کروڑعوام پریشان ہے اتنی بڑی دھاندلی، دہرا معیار ہو اورانصاف دینے والا نہ ہو، اگر عدل انصاف نہیں ہو گا تو ملک آگے نہیں چل سکتا، عدلیہ کا دہرا معیارنہیں ہونا چاہیے۔حالات مشکل ضرورہے ہم اس کی فسطائیت، ذہنیت کا مقابلہ کریں گے جھکیں گے نہیں، میں نے بچوں کولیپ ٹاپ دیئے کلاشنکوف نہیں دی، میں وہی شہبازشریف ہوں جس نے یونیورسٹیاں، پل، ہسپتال بنائے، جب تک میرے قائد اورایوان کا اعتماد ہے اپنی کوشش کرتا رہونگا، ہم ان چیلنجزسے نمٹیں گے، اگرہم میں اتحاد،جذبہ رہا توپاکستان کوعظیم بنائیں گے۔

 

 

 

 

 

 
Advertisement