اسلام آباد: (محمد عادل) عمران خان اس وقت اپنی مقبولیت کی معراج پر ہیں۔13 اگست کے کامیاب جلسے کے بعد ایک بار پھر اپنے مخالفین کو واضح پیغام دینے میں کامیاب رہے ہیں کہ عوامی طاقت ان کے ساتھ ہے۔ وزیراعظم بننے سے قبل ایک ملاقات میں عمران خان نے مستقبل میں ایسی ہی مقبولیت کا دعویٰ کیا تھا جو اب سچ ہوچکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک دن وہ بھی آئے گا جب لوگ ان کے کردار پر انگلی اٹھائیں گے لیکن عوام یقین نہیں کرینگے اور ہر برائی ان کی شخصیت کے پیچھے چھپ جائیگی اور وہ الیکشن میں کھمبا بھی کھڑا کرینگے توجیت جائینگے۔ حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج اس کا واضح ثبوت ہیںاور آنے والے ضمنی الیکشن میں وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرینگے کہ تمام سیاسی قوتیں ان کی عوامی مقبولیت کے سامنے ڈھیر ہیں۔عمران خان سمیت تمام سیاستدانوں کی ہمیشہ سے بھٹو جیسی مقبولیت حاصل کرنے کی خواہش تو رہی ہے لیکن بھٹو جیسے انجام کے خواہشمند نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں اب ستر کی دہائی والے حالات نہیں ،بھٹو عوامی مقبولیت کے باوجود ہار گئے تھے۔مقبولیت کے اس خمار میں کپتان اور ان کے کھلاڑی بھی مسلسل ریڈ لائن کراس کررہے ہیں اور یہ کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہونا چاہئے۔ شہبازگل نے جو کہا عمران خان کو پہلے دن ہی اس سے اعلان لاتعلقی کر لینا چاہے تھا لیکن وہ مخالف سیاسی قیادت کے بیانات کا حوالہ دیکر آنے والے دباؤ کا رخ موڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ اب وہ کارروائی کے خوف سے شہبازگل کے بیان کو غلط تو قرار دے رہے ہیں لیکن ساتھ ہی اسے بھی اپنے خلاف سازش سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔
عمران خان کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اداروں سے لڑائی ان کے اور ان کی جماعت کے حق میں نہیں ،انہیں اپنے بیانیہ کی اصلاح کرلینی چاہئے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ،عمران خان جو کہتے ہیں وہ منٹوں میں لاکھوں کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے اور ویسے بھی کپتان اور ان کی ٹیم بیانیہ بنانے کی ماہر ہے ۔وہ جو کہتے ہیں کھل کر کہتے ہیںاور ڈٹ کر کرتے ہیں ۔ان کا ووٹر ان کی ہر بات پر آنکھ بند کر کے یقین کرتا ہے۔
اب یہ شاید عمران خان کی مقبولیت ہے کہ حکومت اور اتحادی جو الیکشن کمیشن کے فیصلے کیلئے زور دار مطالبے کررہے تھے ابھی تک عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف کوئی ڈیکلر یشن جاری نہیں کرسکے۔عمران خان نے بھی کامیاب جلسے کے بعد فوری الیکشن کے لئے حکومت مخالف تحریک کا اعلان کرنے کی بجائے مزید جلسوں کا اعلان کردیا ہے ۔وہ اپنے کامیاب جلسوں سے پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کے خلاف کوئی بھی ایکشن سیاسی انتشار کا باعث بنے گا۔ اس لئے وہ اپنے لیے بندہوتے دروازے دوبارہ کھولنے کی کوشش کررہے ہیں اور عوامی دباؤ بڑھا رہے ہیں۔عمران خان کو خدشہ ہے کہ نوازشریف کو پاکستان لانے کیلئے ان کے گرد جال بنا جارہا ہے ،توشہ خانہ کیس اور نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ قانون اور انصاف تو سب کے لئے برابر ہے ۔نوازشریف کو اقتدار سے نکالنے کیلئے جو جوازڈھونڈے گئے ایک معمولی سی غلطی پر انہیں نہ صرف اقتدار سے نکالا گیا بلکہ تاحیات نااہل بھی کردیا گیا ۔اب ایک دانستہ غلطی کو کیوں کراور کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے ؟بدقسمتی سے ادارے متنازع ہیں،پہلی بار ان پر کھل کر جانبداری کے الزامات لگ رہے ہیں۔ عدالتی فیصلے مسلسل تنقید کا نشانہ ہیں۔آنے والے چند ماہ ملکی سیاست اور اداروں کے لئے بہت اہم ہیں ،اس لئے سیاسی قیادت کو سوچ سمجھ کر اقدامات کرنے چاہئیں ۔
معیشت کے حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں ،ڈالر روپے کے مقابلے میں مسلسل پسپائی کا شکارہے ،آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف کا پیکج ملتے ہی معاشی معاملات مزید بہتر ہوجائینگے۔ ان حالات میں شہبازحکومت کا ہی ’’ کمال‘‘ ہے کہ ایک بار پھر پیٹر ول کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گررہی ہیں ۔ایسے میں عوام حکومت پر تنقید اور عمران خان کی پذیرائی کیوں نہ کریں ؟اس فیصلے کے نتائج بھی حکومت اور اتحادیوں کو آنے والے ضمنی الیکشن میں بھگتنے پڑیں گے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حکومت عمران خان کی مقبولیت کیلئے خود ہی گراؤنڈ بنارہی ہے اور اپنی سیاسی قبر کھود رہی ہے۔ پہلے مریم نواز نے اپنی ہی حکومت کیخلاف آوازاٹھائی پھر زرداری اور ایم کیوایم کی طرف سے شدید ردعمل آیا ۔نوازشریف اپنی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں تو ہیں لیکن شہبازشریف کی کچھ پالیسیوں سے خوش نہیں۔ نوازشریف کی شدید خواہش تھی کہ اسحاق ڈار واپس جاکر ملکی معیشت کے معاملات سنبھالیں لیکن شہبازشریف اور ان کی ہم خیال لیگی قیادت کے وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا ۔مفتاح اسماعیل نے بھی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا ملبہ شہبازشریف پر ڈال دیا ہے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ سمری پر تو وزیراعظم دستخط کرتے ہیں وہ نہیں ۔ شہباز شریف کو اقتدار تو مل گیا لیکن مشکل فیصلوں کا نقصان یقینا مسلم لیگ (ن) کو اور فائدہ عمران خان کو ہورہا ہے۔