نیویارک: (دنیا نیوز) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کا تنازع انصاف اور بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر پرامن طریقے سے حل کئے بغیر جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا، پاکستان تنازع کے حل کے لئے بھارت کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کے لئے تیار ہے تاہم اس طرح کے مذاکرات کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر ہے، او آئی سی رابطہ گروپ نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر بین الاقوامی توجہ مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، او آئی سی کو اس معاملہ کو اقوام متحدہ کے متعلقہ فورمز پر اٹھانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس کے موقع پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے جموں و کشمیر سے متعلق رابطہ گروپ کے وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس مباحثہ سے ہمیں موجودہ سیاسی اور سکیورٹی صورتحال اور اس کے نتیجہ میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی اور انسانی حقوق کی صورتحال پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے اور ان چیلنجوں سے نمٹنے کے طریقوں اور ذرائع پر غور کرنے میں مدد ملے گی، 5 اگست 2019 کو بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو تبدیل کرنا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنا تھا، اس مقصد کے لئے بھارت نے غیر قانونی اقدامات، انسانی حقوق کی سنگین اور مسلسل خلاف ورزیوں اور دیگر جرائم کا سہارا لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس وقت 9 لاکھ بھارتی فوجی موجود ہیں، حالیہ تاریخ میں قبضہ کیلئے یہ بڑی فوجی تعیناتی ہے، بھارتی قابض فوج جابرانہ اقدامات پر عمل پیرا ہے، غاصب بھارتی فورسز کی جانب سے بے گناہ کشمیریوں کا جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل، حراستی قتل، گھیراؤ، تلاشی کی کارروائیاں، پرامن مظاہرین پر تشدد، انہیں معذور اور اندھا کرنے کے لئے پیلٹ گن کا استعمال، 15 ہزار کشمیری نوجوانوں کا اغوا اور جبری گمشدگی اور پورے دیہاتوں اور شہری نواحی علاقوں کو تباہ کرنے اور جلانے کے ساتھ اجتماعی سزائیں دی جا رہی ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارتی حکام نے پوری حریت قیادت کو جو کشمیریوں کی سیاسی امنگوں کے حقیقی نمائندے ہیں، کو قید میں ڈال رکھا ہے، حریت رہنماؤں کو بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں وحشیانہ اور غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہندوتوا نظریے پر عمل کرتے ہوئے بھارت میں آر ایس ایس، بی جے پی حکومت نے چوتھے جنیوا کنونشن سمیت بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی کرکے مقبوضہ علاقے میں غیر قانونی آبادیاتی تبدیلیاں شروع کی ہیں، یہ آزادی اور خود ارادیت کے مطالبہ کو ختم کرنے کے لئے مسلم اکثریت کو ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے کے منصوبہ کا مرکزی نقطہ ہے، نئے ڈومیسائل قوانین متعارف کرائے گئے ہیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں آباد ہونے کے لئے بھارت بھر سے ہندوؤں کو 40 لاکھ سے زیادہ جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے ہیں، کشمیریوں کی زمینیں اور جائیدادیں فوجی اور سرکاری استعمال کے لئے ضبط کی جا رہی ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی مقننہ میں انتخابی نشستوں کی دوبارہ تقسیم اور ایک نام نہاد حد بندی کمیشن کے ذریعے مقبوضہ علاقے کے اندر انتخابی حدود کی جوڑ توڑ کے ذریعے مسلمانوں کی نمائندگی کو مزید کم کرنا ہے، جنوبی ایشیا میں اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا جب تک جموں و کشمیر کا تنازع انصاف اور بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر پرامن طریقے سے حل نہیں ہو جاتا، یہ تنازع بنیادی طور پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے سے بھارت کے انکار کی وجہ سے ابھی تک حل نہیں ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کیا جائے گا جس کیلئے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کرائی جانی تھی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ لائن آف کنٹرول کے ساتھ 25 فروری 2021 کی جنگ بندی کا سمجھوتہ ایل او سی کے ساتھ امن برقرار رکھنے، کشمیریوں کی قیمتی جانیں بچانے اور ایل او سی کے دونوں اطراف رہنے والے کشمیریوں کے مصائب کو کم کرنے کے لئے پاکستان کی کوششوں کی ایک بہترین مثال ہے، ہمیں توقع تھی کہ بھارت تنازع کے حل کے لئے مذاکرات کی بحالی کے لئے مثبت اقدامات کرے گا، اس کے بجائے بھارت نے اپنے مظالم میں شدت پیدا کی، پاکستان جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حل کے لئے بھارت کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کے لئے تیار ہے تاہم اس طرح کے مذاکرات کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر ہے، بھارت 5 اگست 2019 کو شروع کئے گئے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس لے، بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے، مقبوضہ علاقے میں آبادیاتی تبدیلیوں کو روکے۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے تنازعات اقوام متحدہ اور او آئی سی کے ایجنڈے پر دیرینہ تنازعات کے طور پر موجود ہیں، پاکستان اس منصفانہ مقصد کے لئے او آئی سی کی مسلسل اور غیر واضح حمایت کو سراہتا ہے، او آئی سی کشمیری عوام کی ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے لئے جائز جدوجہد کی حمایت کرنے کی کوششوں میں سب سے آگے رہی ہے، او آئی سی کے رابطہ گروپ نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر بین الاقوامی توجہ مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ او آئی سی کی حمایت جموں و کشمیر کے تنازع کے پائیدار حل کی کوششوں کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ رواں سال کے شروع میں اسلام آباد میں طے پانے والے ایکشن پلان میں بھی یہ معاملہ شامل ہے، او آئی سی کو اس معاملہ کو اقوام متحدہ کے متعلقہ فورمز پر اٹھانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جس میں رابطہ گروپ کی جانب سے سلامتی کونسل کو مشترکہ خط لکھنے کا امکان بھی ہے۔