لاہور: (ویب ڈیسک) صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آڈیو لیک ہونے کے واقعات کو تشویشناک رجحان قرار دیتے ہوئے کہا کہ نجی گفتگو کا لیک ہونا غیبت کے زمرے میں آتا ہے جس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے، ہر شخص کی پرائیویسی ایک امانت ہے جسے برقرار رکھا جانا چاہئے، نجی گفتگو یا تبصرے کو لیک کرنا اور جعلی خبریں پھیلانا غیر اخلاقی ہے اور اس سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلتا ہے۔
گورنر ہاؤس کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ ہمار ے معاشرے کو غیبت اور جعلی خبروں کے مسئلے کا سامنا ہے جو کہ عام طور پر کسی واقعہ کو حوالہ اور سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کرنے سے متعلق ہے۔ ہمیں خود ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ کسی کی نجی گفتگو میں دلچسپی نہ لیں جو بعض اوقات لوگوں اور ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کی وجہ بن جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کی وجہ سے معلومات کے لیک ہونے میں اضافہ ہوا ہے تاہم 95 فیصد سوشل میڈیا نے مفید معلومات اور اطلاعات فراہم کرنے میں کردار ادا کیا جبکہ صرف 5 فیصد سوشل میڈیا مبینہ جعلی خبروں میں ملوث سمجھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کو ضروری معلومات اور علم کے لیے استعمال کیا جانا چاہئے۔
عارف علوی نے سیاسی حریفوں کے ساتھ خاص طور پر عوامی پلیٹ فارم پر مہذب رویے پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ سیاستدان قوم کو فکری طور پر مضبوط بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں، فکری قوت ہمارے ملک کو کم سے کم مدت میں مضبوط بنا سکتی ہے۔ رابطوں کی کمی، بدعنوان اور اقربا پروری وہ برائیاں ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ہر قوم کو مناسب اقدام کرنا چاہیے۔
صدر نے کہا کہ دنیا نے سائبر سیکیورٹی میں اہم ایجادات اور پیشرفت کی ہے جو کسی بھی قوم کی حفاظت اور سلامتی کے لیے ایک اہم شعبہ بن گیا ہے، پاکستان کو استحکام اور ترقی کی بنیاد رکھنے کے لیے سائبر سیکیورٹی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لئے فیصلہ کن اور پرعزم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں شروع سے ہی کرپشن کا تاثر موجود رہا ہے تاہم فریقین کی ملی بھگت کی وجہ سے وائٹ کالر کرائمز کے مقدمات کو ثابت کرنا مشکل کام بن گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ میں نے نیب ترمیمی بل کو بغیر دستخط کے اس کمنٹ کے ساتھ واپس کیا کہ وائٹ کالر کرائم میں دولت جمع کرنے کو ثابت کرنے کی ذمہ داری اسلام کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک کے بہت سے قوانین میں بھی ملزمان پر ہے۔ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں اسٹیک ہولڈرز کو مناسب سطح پر مشاورت، گفت و شنید اور بات چیت کے جمہوری طریقوں کے ذریعے قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عارف علوی نے کہا کہ پاکستان کو بے مثال سیلاب اور ایک نازک معاشی صورتحال جیسے کچھ حقیقی مسائل کا سامنا ہےجس کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مقصد پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت، ادارے، سول اور ملٹری اور دیگر اسٹیک ہولڈرز تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آنے والے سپر فلڈز کے متاثرین کے ریسکیو اور ریلیف کے لئے اچھا کام کر رہے ہیں۔
صدر مملکت نے امداد کی منصفانہ اور شفاف تقسیم کے لئے فول پروف نظام قائم کرنے اور چوری روکنے کے لئے ایک طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نے امید ظاہر کی کہ حکومت کی جانب سے قرضوں میں رعایت حاصل کرنے جیسی کوششیں بار آور ثابت ہوں گی جس سے امدادی کوششوں اور سیلاب متاثرین کی بحالی اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے لیے وسائل فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے این جی اوز، سول سوسائٹی اور عالمی برادری سے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے دل کھول کر عطیات دینے کی اپیل کا بھی اعادہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں شہری دفاع کے تربیتی پروگراموں کو بحال کرنا چاہئے اور گرلز اینڈ بوائے اسکاؤٹس اور اس طرح کی دیگر تنظیموں کو فعال کرتے ہوئے ان کی تربیت کا اہتمام کرنا چاہئے، لوگوں کو آفات سے بچاؤ کے طریقوں سے آگاہ کیا جانا چاہئے تاکہ وہ ہر طرح کی ناگہانی آفات کی صورت میں متاثرین کو فوری ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی معاونت کرنے کے قابل ہو سکیں ۔