آڈیو لیکس: وزیراعظم کوئی بھی ہو قومی سلامتی کا سوال پیدا ہوا ہے: بلاول بھٹو

Published On 29 September,2022 08:35 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے آڈیو لیکس معاملے کو حساس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِاعظم چاہے کوئی بھی ہو اس سے قومی سلامتی کا سوال پیدا ہواہے۔ ہمیں اس کا جواب چاہیے۔

امریکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے آڈیو لیکس معاملے کی انکوائری کا حکم دیا ہے جس کے نتائج کا ہم سب کو انتظار رہے گا۔ اس عمل کی مذمت کرتے ہیں۔ جب وزیرِ اعظم کے دفتر کا معاملہ ہو تو وزیرِاعظم چاہے عمران خان ہوں یا شہباز شریف، اس سے قومی سلامتی کا سوال پیدا ہوا ہے۔

کالعدم تحریکِ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات گزشتہ دورِ حکومت میں شروع ہوئے تھے اور بات سیز فائر تک پہنچ گئی تھی۔ ہمارا شروع سے ہی مؤقف رہا ہے پارلیمان کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے جس کے بعد پارلیمان کو بریفنگ دی گئی، اب بھی اصرار ہے مذاکراتی عمل پارلیمان کی زیر نگرانی ہی ہونا چاہیے لیکن تاحال کمیٹی نہیں بنی۔ توقع ہے اس کے نتیجے میں امن قائم ہو گا لیکن ماضی میں ایسے مذاکرات کا نتیجہ مثبت نہیں رہا۔ـ

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں افغان طالبان سے رابطہ کاری کے حق میں ہوں۔ ہم نے نوے کی دہائی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اس وقت انہیں تنہا چھوڑنے سے مسائل پیدا ہوئے اور انتہا پسندی بڑھی۔ اگر ہم چاہتے ہیں افغانستان میں خواتین اور دیگر گروپس کو حقوق ملیں تو ہمیں طالبان کے ساتھ رابطے میں رہنا ہو گا۔ منجمد فنڈز جاری کرنا ہوں گے کیوںکہ وہ افغان عوام کے فنڈز ہیں۔ ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ غربت, دہشت گردی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ہمیں افغان معیشت کی بحالی اور افغان عوام کو حقوق دلانے کے لیے انہیں مالی وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

حالیہ سیلاب اور بیرونی امداد سے متعلق سوال کے جواب میں بلاول کا کہنا تھا کہ ہمیں امریکا اور انٹرنیشنل کمیونٹی سے جو رسپانس ملا ہے ، میں بہت مطمئن ہوں۔ ابھی ہم سیلاب سے نمٹنے کے ابتدائی حالات سے گزر رہے ہیں۔ اگر قرضوں میں ریلیف کی ضرورت پڑی تو ہم اس سلسلے میں چین سمیت سب سے بات کریں گے۔

پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے سوال پر جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اپنی سطح پر اس سلسلے میں کافی کوششیں کر چکا ہے۔ 2010 میں پاکستان نے یکطرفہ طور پر تجارت شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن 2019 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کے عوام مخالف اقدامات کی وجہ سے حالات بہت بدل چکے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات نے بھی اس صورتِ حال کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے فی الحال پاکستان کی جانب سے ہاتھ آگے بڑھانا ممکن نہیں ہے۔

امریکا کی جانب سے حکومت گرانے پر انہوں نے عمران خان کے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت گرانے میں امریکی سازش کا ہاتھ ہے۔ ہم عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے ہٹانے کے لیے 3 سال سے سیاسی جدو جہد کر رہے تھے۔ ہم نے ان کے خلاف اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جس میں ان کی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔ یہ ایک جمہوری طریقۂ کار ہے۔ اس میں سازش کہاں سے آگئی۔

فوج کے کردار کا ذکرکرتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا کہ عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ فوج کردار ادا کرے اور انہیں ہمیشہ وزیر اعظم کی مسند پر بٹھائے رکھے۔ میں اور پیپلز پارٹی کبھی بھی فوج مخالف نہیں تھی لیکن ان کی جدو جہد مسلسل جمہوریت کے لیے تھی اور ہے۔ ہمیں فوج نےسپورٹ نہیں کیا بلکہ ہم پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد حکومت میں آئے ہیں۔

 

اے ایف پی کو انٹرویو

اس سے قبل فرانسیسی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے امریکا کی جانب سے طالبان پر عدم اعتماد کی وجہ سے افغانستان کے منجمد اثاثوں کو سوئٹزرلینڈ کے پروفیشنل فنڈ میں ڈالنے کے بعد متوازی حکومت قائم کرنے کے خدشے کے خلاف خبردار کیا۔ ہم نے ماضی سے سیکھا ہے کہ جب ہم ہاتھ جھاڑ کر الگ ہوجاتے ہیں اور پیٹھ پھیرلیتے ہیں، تو ہم اپنے لیے غیر ارادی نتائج اور مزید مسائل پیدا کرتے ہیں۔

وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ چاہیے۔انہوں نے افغانستان کے حکمرانوں کو دوبارہ تنہا کرنے کی صورت میں خطرناک نتائج کے بارے میں انتباہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کسی معاشی تباہی، پناہ گزینوں کی بہت بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور ISIS خراسان اوراس جیسی دیگر تنظیموں کے لیے نئی بھرتیوں کے خطرے کے بارے میں ہمارے خدشات، اس تشویش سے کہیں زیادہ ہیں جو ان کے مالیاتی اداروں کے بارے میں ہو سکتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ عسکریت پسندوں کوتیزی سے تنزلی کا شکار ہونے والے خواتین کے حقوق جیسے خدشات پر "سیاسی گنجائش" کی ضرورت ہے۔ پوری تاریخ میں،معاشی بدحالی کے ادوار میں مذہبی، مطلق العنان حکومتوں میں حقوق کو وسعت دینے کا رجحان قطعی طور پر نظرنہیں آتا۔ درحقیقت، وہ اپنےعوام کو مصروف رکھنے کے لیے ثقافتی اور دیگر مسائل کا سہارا لیتے ہیں۔