اسلام آباد:(دنیا نیوز) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ صرف کہنے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے عملی اقدامات ضروری ہیں، سیاسی استحکام شفاف الیکشن سے ہی آئے گا، حکومت کمر توڑ مہنگائی روکنے کی کوشش کرے۔
صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، اس دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی غیر اعلانیہ بائیکاٹ کردیا، ایوان تقریباً خالی رہا اور 442 ارکان کے ایوان میں صرف 14 اراکین موجود تھے جو کہ صدر کے خطاب سے عدم دلچسپی ظاہر کرتے رہے، اسپیکر کی جانب سے اراکین کو نشستوں پر جانے کی ہدایت بھی کی جاتی رہی۔
صدرمملکت نے اراکین کی عدم توجہ کے باوجود اپنا خطاب جاری رکھا، اس دوران ایوان میں پی ٹی آئی کا کوئی بھی ایم این اے یا سینیٹر موجود نہیں تھا تاہم پی ٹی آئی کے چند منحرف اراکین ایوان میں موجود تھے۔
ارکان پارلیمنٹ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ موجودہ اسمبلی کو نہیں مانتے اس لیے بائیکاٹ کیا، مشترکہ اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی کر رہے ہیں، انہیں بھی نہیں مانتے۔
مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے بھی صدر مملکت کے خطاب کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کیا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ قومی راز عیاں نہیں ہونے چاہئیں، آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہئے، صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایک قابل عمل طریقہ کار ہے جس سے انتخابی عمل پر تحفظات دور کئے جاسکتے ہیں، بیرون ملک 30 لاکھ پاکستانیوں کوووٹ کا حق ملنا چاہئے، پاکستان ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے، کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی حمایت جاری رکھیں گے، پارلیمان کے چوتھےسال کی تکمیل اور پانچویں سال کے آغاز پر ارکان پارلیمنٹ کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں، میں یہاں پر آپ کے سامنے قائد اعظم کا قول پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے کہا کہ خدا نے ہمیں ایک عظیم موقع دیا ہے کہ ہم ایک نئی ریاست کے معمار کے طور پر اپنی قابلیت کو ثابت کریں اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم اپنی ذمہ داری کے ساتھ انصاف نہ کر سکے، میں اس ذمہ داری کا بھی احساس دلانا چاہتا ہوں کہ آزادی کا حصول کتنا مشکل ہے اور جمہوریت کو پروان چڑھتے رہنا چاہیے تاکہ ہمارا ملک مزید مضبوط ہو، میں اللہ تعالی کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں درپیش مسائل سے جلد نجات عطا فرمائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سال مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے ایک “سیلاب عظیم ” کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہمیں شدید نقصان برداشت کرنا پڑا، سیلاب سے اب تک تقریبا 15 سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور گھروں، عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیموں کو بھی نقصان پہنچا، اس کے علاوہ زرعی شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچا، اس موقع پر میں سب سے پہلے ان تمام اداروں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے سیلاب متاثرین کو بچایا اور انہیں مدد فراہم کی، ان اداروں میں سرفہرست پاکستان کی افواج ہیں جنہوں نے اس بحران میں انتہائی منظم انداز میں لوگوں کی جانیں بچائیں، اس کے ساتھ ہی میں دیگر اداروں کا بھی ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن میں این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے ، صوبائی حکومتیں ، این جی اوز اور ہلالِ احمر کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، یہ ادارے سیلاب کے فورا بعد لوگوں کی امداد کو پہنچے اور اب سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے کاوشیں کر رہے ہیں، میں مخیر حضرات اور نجی اداروں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے بڑے پیمانے پر رقومات جمع کر کے سیلاب زدگان میں تقسیم کیں، یہاں میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بھی ذکر کروں گا کہ جس کی مدد سے سیلاب متاثرین کو رقوم کی فراہمی ممکن بنائی گئی اور اب تک 24 لاکھ سے زائد سیلاب متاثرہ خاندانوں میں61 ارب روپے سے زائد کی رقم تقسیم کی گئی ہے، میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا بھی انتہائی مشکور ہوں کہ انہوں نے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیلاب متاثرین کا احوال جاننے کیلئے ان سے ذاتی طور پر ملاقاتیں بھی کی، ہم 30 اگست 2022 ء کی 160 ملین ڈالر کی فلیش اپیل اور پھر اسے 816 ملین ڈالر تک بڑھانے کی کال کو سراہتے ہیں اور اس سے سیلاب متاثرین کو ایک مربوط انداز میں امداد پہنچانے میں مدد ملے گی۔
عارف علوی کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ بین الاقوامی برادری کی توجہ سیلاب متاثرین کی حالت زار کی جانب مبذول کرانے اور بین الاقوامی امدادی کوششوں کو متحرک کرنے کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہوا، ہم امریکی کانگریس کے وفد کے بھی شکر گزار ہیں کہ وہ ممبر کانگریس شیلا جیکسن کی قیادت میں پاکستان تشریف لایا، اس کے علاوہ غیر ملکی معززین اور پاکستان میں مقیم سفرا بھی سیلاب زدہ علاقوں میں گئے جس سے انہیں سیلاب کی تباہ کاریوں کا اندازہ لگانے میں مدد ملی، موسمیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اس سیلاب کی شدت اور تباہی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ تھی، پاکستان کا موسمیاتی تبدیلی اور عالمی سطح پر گرین ہاس گیسز کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، مگر پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت کے منفی اور مضر اثرات کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑ رہی ہے، وہ اس ایوان میں موجود اراکین پارلیمان، اکابرین اور حکومت سے وابستہ افراد سے گزارش کرتے ہیں کہ ایمرجنسی ریلیف اور ریسکیو خدمات کی فراہمی کیلئے بوائے سکائوٹس اور گرلز گائیڈز کی خدمات امداد اور ریسکیو اور زخمیوں کو ایمرجنسی طبی امداد فراہم کرنے کیلئے حاصل کی جاسکتی ہیں، قیام پاکستان کے بعد بوائے سکائوٹس ایسوسی ایشن اور گرل سکائوٹس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں نیشنل کیڈٹ کور کے ذریعے نوجوانوں کو بنیادی فوجی تربیت کے علاوہ ایمرجنسی صورتوں سے نمٹنے کی بھی تربیت دی جاتی تھی۔
صدر ملمکت نے کہا کہ آج جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں سیلاب کا سامنا ہے اور مستقبل میں بھی ایسی آفات کا خطرہ بڑھ گیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے ہم اپنے نوجوانوں کو بحران اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے علاوہ سی پی آر اور ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کی تربیت دیں، ہنگامی صورتحال کہیں بھی اور کسی بھی جگہ پیدا ہو سکتی ہے، ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان ہمہ وقت ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار رہیں، میں یہاں اس امر پر بھی زور دینا چاہتا ہوں کہ تمام ادارے مل کر خون عطیہ کرنے کی مہم، بحران اور قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے نوجوان نسل کو تیار کریں، سیلاب کی وجہ سے ہمارے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچا اور لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں اور یہ خطرہ ہے کہ اہم فصلیں جس میں چاول، گندم، کپاس شامل ہیں، ان کی پیداوار میں کمی واقع ہوگی، اس حوالے سے حکومتوں کو فصلوں کی انشورنس کے حوالے سے کسان دوست فصل انشورنس سکیم لانے پر بھی غور کرنا چاہیے، اس میں نجی انشورنس کمپنیوں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی کسانوں کو انشورنس فراہم کرنے پر غور کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم ڈیموں کی مدد سے سیلاب کے پانی کو محفوظ کر لیں تو نہ صرف خشک موسم میں پانی کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے بلکہ پانی کو محفوظ کرنے کے جدید طریقوں کو اپنا کر ہم زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کر سکتے ہیں، اپنے زمینی پانی کے ذخائر میں اضافہ کر سکتے ہیں اور سیلابی ریلے جو شدید تباہی کا باعث بنتے ہیں ان سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے، مجھے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا اور اس دوران اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلے کی تباہ کاریوں کو مختلف چھوٹے یا بڑے ڈیموں کی مدد سے کم کیا جا سکتا ہے اور یہ ڈیم پانی کی رفتار کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، یہاں پر میں نوشہرہ کی بھی مثال دینا چاہوں گا کہ وہاں بندکی تعمیر کی وجہ سے شہر کو بڑے نقصان سے بچا لیا گیا، سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے ہمیں ایسے اقدامات پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، ان اقدامات سے نہ صرف ہم سیلاب کی تباہی سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ اپنے پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں، پاکستان میں بارشوں اور دریائوں سمیت مختلف آبی ذرائع سے تقریباً 150 ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل ہوتا ہے، مگر پانی ذخیرہ نہ کرنے اور اس کے موثر انتظام اور تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے ایک بڑی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی اور اس کی صنعتوں کا انحصار زرعی شعبے پر ہے، پاکستان میں آزادی کے وقت دنیا کا ایک بہترین آبپاشی کا نظام موجود تھا لیکن ہمارے ہاں فصلوں کی پیداوار دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، دنیا نے زرعی شعبے اور فصلوں اور زمین کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے اعتبار سے بے پناہ ترقی کی ہے، رقبے کے اعتبار سے پاکستان سے تقریباً 19 گنا چھوٹا ملک نیدرلینڈ دنیا کا دوسرا بڑا خوراک کا برآمدی ملک ہے اور اس کے پیچھے زرعی نظام کو بہتر بنیادوں پر استوار کرنا اور اسکی بہترین نظم و نسق ہے، جتنی زمین اور پانی پاکستان کے پاس موجود ہے اگر ہم زرعی شعبے کو جدید بنیادوں پر ترقی دیں تو نہ صرف ہم اپنی زرعی ضروریات پوری کر سکتے ہیں بلکہ انہیں برآمد بھی کر سکتے ہیں، اس کیلئے ہمیں زرعی شعبے کو ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی دینا ہوگا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان کی بڑی کامیابیوں میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانا ہے، دہشت گردی کا جس انداز سے پاکستان نے مقابلہ کیا دنیا میں کہیں نہیں کیا گیا، ہم نے دہشت گردی کو بارڈر تک محدود رکھا حالانکہ ہمارے مغرب میں دہشت گردی کی وجہ سے بڑی تباہی ہوئی، دہشت گردی کو شکست دینا ہماری بڑی کامیابی ہے، پاکستان نے40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو 40 سال تک پناہ دی، دنیا میں پناہ گزینوں کے رنگ اور نسل کی بنیاد پر انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے مگر ہم نے ایسا نہیں کیا اور ہمیں اس پر فخر ہونا چاہیے، قوم نے حال ہی میں کورونا وبا کا کامیابی سے مقابلہ کیا، علما، میڈیا، حکومت، عوام اور تمام اداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے نہایت موثر انداز میں اس وبا پر قابو پایا، این سی او سی اور حکومتی پالیسی کی وجہ سے اپنے پڑوسی ملک اور دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں بہت کم نقصان ہوا اور اس کامیابی پر بحیثیت قوم پاکستانی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ہماری آبادی کا تقریباً 63 فیصد حصہ 15 سے 33 سال کے نوجوان افراد پر مشتمل ہے جو کہ 35 ملین کے قریب بنتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک بہت بڑی طاقت اور انسانی وسائل موجود ہیں، اگر ان انسانی وسائل اور طاقت کو تعلیم سے آراستہ کردیا جائے اور انہیں قابل قدر اور مناسب مہارتوں سے لیس کردیا جائے تو یہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کو بدل سکتے ہیں، اگر یہی انسانی وسائل اور افرادی قوت غیر تعلیم یافتہ رہیں اور ان کے پاس کوئی ہنر نہ ہو تو یہی آبادی بڑی عمر کو پہنچ کر پاکستان کیلئے بوجھ بن سکتی ہے، ہماری قوم کیلئے تعلیم بے حد ضروری ہے، حالیہ کچھ اندازوں کے مطابق پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی شرح تقریباً 19 فیصد ہے، یونیسیف کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ان بچوں کی تعداد 2 کروڑ کے لگ بھگ ہے، یہ حکومت کا اور ہم سب کا فرض ہے کہ ان تک تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، ہمیں ان بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کو اولین ترجیح دینا ہوگی، علما بھی یہ تجویز پیش کر چکے ہیں کہ مساجد کو فجر سے لیکر ظہر تک سکول نہ جانے والے بچوں کو تعلیم دینے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ ہمیں اپنے لوگوں کو ہنر پر مبنی تعلیم دینا بھی ہوگی، صرف مزدوری کے ذریعے آمدنی اتنی نہیں ہوگی کہ ہمارے لوگ مناسب روزگار حاصل کر سکیں، اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو مڈل اسکول کی سطح سے ہنر سکھائے جائیں، اس مقصد کیلئے دو بڑے اچھے ادارے موجود ہیں، جن میں سے ایک قومی سطح پر موجود نیشنل ووکیشنل اور ٹیکنکل ٹریننگ کا ادارہ (نیوٹیک) موجود ہے اور دوسرا ادارہ ٹیوٹا کی صورت میں صوبائی سطح پر موجود ہے اور یہ انتہائی قابل ذکر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے لیے اپنی افرادی قوت کو ہنر مند بنانا ناگزیر ہو چکا ہے ورنہ ہم اسی طرح بے ہنر افراد قوت برآمد کرتے رہیں گے ۔
صدر نے کہا کہ ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ انسانی وسائل کی بھی اشد ضرورت ہے، نہ صرف دنیا بلکہ پاکستان کو بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کروڑوں تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے، پاکستان سالانہ 30 ہزار کے قریب آئی ٹی گریجویٹس پیدا کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں ہمارا پڑوسی ملک تقریبا 8 لاکھ کے قریب آئی ٹی گریجویٹس پیدا کرتا ہے، ہم اپنی افرادی قوت کو آئی ٹی کی مہارتیں سکھائے بغیر دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے، آئی ٹی اسکلز دینے سے اس بات کا امکان باقی رہتا ہے کہ لوگ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے بیرون ملک جائے بغیر اور جس طرح دنیا مہاجرین کی آمد کی حوصلہ شکنی کررہی ہے، اس کے باوجود گھر بیٹھے دنیا بھر کو اپنی مصنوعات اور خدمات بیچ سکتے ہیں اس سے ایک مثبت اثر یہ پڑے گا کہ جس طرح ہم نے ماضی میں اپنے بہترین دماغ، جس میں ڈاکٹر اور انجینئر شامل ہیں کو ایکسپورٹ کیا تو ہمیں انہیں باہر نہیں بھیجنا پڑے گا، یاد رہے کہ ان بہترین انسانی وسائل کی تیاری پر ہمارا کثیر سرمایہ اور وسائل بھی صرف ہوئے، پاکستان میں تربیت یافتہ اور ہنر مند انسانی وسائل کا بڑا فقدان ہے اور ہم صرف اور صرف اپنے انسانی وسائل کی بنیاد پر ہی ترقی کر سکتے ہیں، حکومت کو دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ، انسانی وسائل کی تربیت کیلئے بھی اقدامات اٹھانا ہوں تاکہ انسانی وسائل کی تربیت میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔
عارف علوی نے کہا کہ کورونا وبا کے دوران آن لائن اور فاصلاتی تعلیم کی اہمیت مزید ابھر کر سامنے آئی، ہم اپنے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کیلئے آن لائن تعلیم و تربیت سے بھی مدد لے سکتے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ پاکستان کے اندر ایسے ادارے موجود ہیں جو آن لائن اور فاصلاتی تعلیم پر کام کر رہے ہیں اور ان اداروں اور ان کی صلاحیت میں اضافے اور طلبا کی تعداد بڑھانے کیلئے بہت زیادہ وسائل بھی درکار نہیں ہیں، یہاں میں وزیر اعظم کے ڈیجیٹل اسکلز پروگرام کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ جس سے اب تک تقریبا 24 لاکھ لوگ استفادہ کر چکے ہیں اور اس پروگرام کی مدد سے انہیں جدید آئی ٹی مہارتیں سکھائی گئی۔ یہاں پرمیں خصوصی افراد یا پھر افراد باہم معذوری کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جو کہ ہماری آبادی کا تقریبا 9 فیصد حصہ ہیں، انہیں ہنر مند بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا روزگار گھر بیٹھے کما سکیں،علاوہ ازیں آئی ٹی شعبے کے حوالے سے میں سائبر سیکورٹی کا بھی ذکر کرتا چلوں، سائبر سیکورٹی اور کسی بھی قوم کی مجموعی سائبر صلاحیتیں وقت کے ساتھ ساتھ مزید اہمیت اختیار کر گئی ہیں، دفاع ، اہم تنصیبات ، فوجی و دفاعی تنصیبات کے تحفظ کے ساتھ معیشت اور اطلاعات کے شعبے میں بھی سائبر سیکورٹی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، پاکستان کو ماضی میں ہیکنگ اور سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان سائبر صلاحیتوں کے اعتبار سے انتہائی سستے اور تیزرفتاری کے ساتھ اپنا مقام بنا سکتا ہے مگر اس کیلئے ہماری فورسز کے ساتھ ساتھ تمام شعبوں کے اداروں اور افراد کو محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ شعبہ صحت ملک اور قوم کی صحت کے حوالے سے بہت اہم ہے، اس شعبے میں مجھے ٹاسک فورس برائے آبادی کی ذمہ داری دی گئی تھی، ہمیں پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح جو کہ تقریبا 2.4 فیصد ہے کو کم کرنا ہے، آبادی میں اضافے کی شرح ایک تو فطری اعتبار سے اس وقت خود کم ہوتی ہے جب معیشت کی بہتری کے ساتھ شرح پیدائش میں کمی واقع ہوتی ہے، آبادی میں یہ تبدیلی دیگر ممالک میں بھی واقع ہوئی، یہی وقت ہے کہ ہم علما، میڈیا اور اساتذہ کی مدد سے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پاسکتے ہیں، پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق تقریبا 90 لاکھ کے قریب حمل واقع ہوتے ہیں جن میں سے تقریبا40 سے 50 لاکھ ان چاہے حمل ہوتے ہیں، اتنی بڑی آبادی تک مانع حمل مصنوعات جو صرف 35 سے 40 فیصد خاندانوں کو پہنچتا ہے، سب کو پہنچا کر آبادی میں اضافے کی شرح میں واضح کمی لائی جاسکتی ہے، امید ہے حکومت اس مسئلے کی جانب ضرور توجہ دے گی، اسی طرح صحت کے حوالے سے ، پاکستان میں تقریبا 38 فیصد ذہنی و جسمانی کمزوری یعنی کہ سٹنٹنگکا شکار ہیں، اس سلسلے میں بچے کی پیدائش کے بعد کے ایک ہزار دن خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور اس عرصے کے دوران ماں اور بچے کی خوارک پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے، اس مقصد کیلئے ضرورت ہے کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق ماں کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو دو سال تک اپنا دودھ پلائیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس عرصے کے دوران چھ مہینے تک بچوں کو صرف ماں کا دودھ ہی پلایا جائے اور انہیں پانی اور کوئی اور غذا دینے سے بھی پرہیز کیا جائے، ہمیں بچوں کی صحت اور انہیں ماں کا دودھ پلانے کے معاملے پر قرآن کے احکامات کو معاشرے میں عام کرنے پر توجہ دینا ہوگی، ماں اور بچوں کی ذہنی و جسمانی کمزوری اور غذائی قلت کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے بے نظیرانکم اسپورٹ اور احساس پروگرام کے تحت گھروں تک غذائی پیکٹس کی فراہمی ممکن بنائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے کھانے پینے کی عادات میں توازن اور تنوع لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری غذائی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کیا جا سکے۔ ہمیں بیماریوں کے علاج کے علاوہ بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے اور احتیاطی تدابیر ختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بیماریوں کا علاج کرنا بیماریوں کو روکنے کی نسبت مہنگا ہے اور ہم ایک ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثیت سے اتنا مہنگا علاج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ یہاں پر میں ہیپاٹائٹس کی بیماری کا ذکر کرنا چاہوں گا جو کہ ایک اندازے کے مطابق تقریبا 9 فیصد آبادی میں پائی جاتی ہے۔ اس 9 فیصد آبادی کا علاج کرنے کیلئے اربوں ڈالر درکار ہوں گے، مزید لوگوں تک اس بیماری کے پھیلا کو روکنے کیلئے انتہائی کم وسائل کی ضرورت ہے۔ متعدی یا چھوت کی بیماریوں کے پھیلا کو روکنے کیلئے طہارت اور صفائی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، متعدی یا چھوت کی بیماریوں میں کورونا جیسی بیماریاں شامل ہیں جو کہ ہاتھ نہ دھونے یا صفائی کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے ایک شخص سے دوسرے شخص تک پھیلتی ہیں۔
عارف علوی کا کہنا تھا کہ یہاں پر میں آپ کی توجہ اس بات کی جانب دلانا چاہتا ہوں کہ طہارت اور صفائی کو اسلام میں نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے اور ہم متعدی یا چھوت کی بیماریوں پر بہتر صفائی ستھرائی کے نظام اور عادات سے قابو پا سکتے ہیں، غیر متعدی بیماریوں میں ہمارے ہاں ذیابیطس کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، ایک طرف بچوں کو غذائی قلت کی وجہ سے ذہنی و جسمانی کمزوری کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہمارے ہاں موٹاپے اور اس کی وجہ سے بیماریوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے، ہمیں ان مسائل پر لوگوں میں شعور بیدار کر کے قابو پانا ہوگا، پاکستان نے پولیو کی بیماری پر کافی حد تک قابو پایا مگر اب بھی اس بیماری کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا۔
صدر مملکت نے کہا کہ ہمیں اس سلسلے میں مزید محنت اور اقدامات کی ضرورت ہے، میں اس سلسے میں بل اینڈ میلنڈا گیٹس فانڈیشن سمیت دیگر تنظیموں کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے پولیو کے خاتمے کیلئے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ ہمیں پاکستان میں چھاتی کے کینسر کے حوالے سے بھی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس مرض کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں اس کینسر سے شرح اموات بہت زیادہ ہے، سب کو اس بیماری کی علامات جاننی چاہئیں، ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنا جسمانی معائنہ خود کرنے اور اس کی جلد تشخیص اور علاج پر توجہ دیں اور سب اپنے دائرہ کار میں لوگوں کو آگاہی دیں۔ مزید برآں میں پاکستان میں ذہنی و نفسیاتی صحت کے بنیادی ڈھانچے کے قیام کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں، مختلف سروے اور تحقیقات کے مطابق جس میں ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان بھی شامل ہے ، ہماری آبادی کا تقریبا 24 فیصد حصہ ذہنی و نفسیاتی صحت کے مسائل کا شکار ہے، ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد اور غیر معقول رویوں میں اضافے، خودکشیاں جن اس کی تعداد تقریبا 19 ہزار تھی ، اپنے پیاروں سمیت دوسروں کو شدید زخمی اور قتل کرنے کے واقعات بھی اس امر کی عکاسی کرتے ہیں ۔ نفسیاتی مسائل کی وجہ سے منشیات کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے اور تحقیق کے مطابق سکول اور کالج جانے والے بچے زیادہ دبا کا شکار ہوتے ہیں، بدقسمتی سے 22 کروڑ آبادی کیلئے صرف 500 کے قریب ماہر نفسیات، تقریبا 1500 سائیکالوجسٹس کی بہت ہی کم تعداد موجود ہے ۔
صدر مملکت نے کہا کہ حکومت ملک میں ذہنی و نفسیاتی صحت کا نظام تشکیل دینے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے، اس نظام میں اعلی تربیت یافتہ اور قابل ماہرین تیار کیئے جائیں تاکہ ہماری 24 فیصد آبادی کو ان کی ذہنی و نفسیاتی صحت کے حوالے سے خدمات میسر کی جا سکیں اور انہیں معاشرے کا صحت مند اور فعال شہری بنایا جا سکے ، ہمارے ملک کے صحت کے نظام کو تقریبا 7 لاکھ نرسوں کی شدید کمی کا سامنا ہے جبکہ ہمارے ہاں نرسوں کی تعداد تقریبا 2 لاکھ ہے۔
اس کمی کی وجہ سے سرکاری اور نجی دونوں شعبے شدید دبا کا شکار ہیں ۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ہمیں اس امر کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ نرسنگ کی تعلیم بڑھائی جائے ۔ نجی شعبے کو نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تر بیت کیلئے سہولیات قائم کرنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ، صحت کی انشورنس ، صحت کارڈز کا اجرا قابل تعریف قدم ہے۔ ہمیں لوگوں کو ٹیلی ہیلتھ کی خدمات کی فراہمی کیلئے بھی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ لوگ گھر بیٹھے بیٹھے بھی ڈاکٹر سے مفت مشورہ حاصل کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب اس وقت تک ادھورا رہے گا جب تک ہم اپنی تقریبا 50 فیصد خواتین آبادی کو معیشت اور ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل نہیں کریں گے ۔
اسلام میں ہمارے پاس ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں عورتیں کاروبار و تجارت اور ریاستی نظم و نسق کی سرگرمیوں میں شامل تھیں۔ حضورﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ، ایک مضبوط اور خودمختار مسلم خاتون کی روشن اور اعلی مثال ہیں ۔ آپ ایک کاروباری خاتون تھیں اور مسلم خواتین کے لیے مثالی حیثیت کی حامل ہیں ۔ خواتین کو گھروں تک محدود رکھنے کا تصور مذہب کے بجائے ہماری سماجی اور ثقافتی روایات میں سے نکلا ہے ۔یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم عورت کا تحفظ یقینی بنائیں اور انہیں کام کی جگہ پر بالخصوص محفوظ ماحول فراہم کریں۔ ہمیں خواتین کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے اہداف کو جلد از جلد مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔
خواتین کے حقوق اور ان کی معاشرتی شمولیت بڑھانے کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہوگی ۔ ہمیں خواتین کی استعدادِ کار میں اضافہ ، ان کیلئے معیاری اور سستی صحت کی سہولیات ، تمام سطحوں پر تعلیم کے مساوی مواقع اور مساوی تنخواہ، تمام شعبہ زندگی میں کام کرنے کے یکساں مواقع اور ان کے حقوق کا احترام بھی یقینی بنانا ہوگا۔ صدر مملکت نے کہا کہ ہمیں خواتین کو جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ذرائع کی مدد سے مالی طور پر خود مختار بنانا ہوگا اور ان کی معیشت میں شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا۔
اس سلسلے میں ، مجھے خوشی ہے کہ سٹیٹ بینک نے اقدامات لئے ہیں اور اب عورتیں گھر بیٹھ کر اپنا اکائونٹ کھلوا سکتی ہیں، اس سے پہلے انہیں ایک مشکل عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔ ڈیجیٹل ذرائع اور آئی ٹی کی مدد سے ہماری کچھ خواتین پہلے سے کام کر رہی ہیں اور گھر بیٹھے بیٹھے روزگار کما رہی ہیں ۔ ایمازون اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز کی مدد سے خواتین قابل قدر مصنوعات تیار کر کے عالمی مارکیٹ میں بیچ سکتی ہیں ۔ میں اس ایوان کے توسط سے خواتین کو پیغام دینا چاہوں گا کہ وہ مختلف تربیتی کورسز جس میں ایمازون، گوگل اور فیس بک یا میٹا کی جانب سے پیش کردہ تربیتی کورسز شامل ہیں ، ان سب سے ضرور استفادہ کریں ۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ہماری معیشت کو نقصان پہنچا مگر ہم نے حفاظتی تدابیر اور جزوی لاک ڈائون کی مدد سے صورتحال پر کافی حد تک قابو پایا۔ کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں طلب اور رسد کے مسائل پیدا ہوئے ۔ یوکرین روس جنگ کے عالمی سطح پر بھی اثرات ہوئے اور اس کا پاکستان پر بھی اثر پڑا۔ موجودہ وزیر اعظم اور پچھلی حکومت کے وزیر اعظم بھی اس بات پر زور دیتے رہے کہ ہمیں معاشی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ پچھلے سال ہماری معیشت نے تیزی سے ترقی کی اور 5.97 فیصد کی متاثر کن شرح نمو ریکارڈ کی گئی۔ ہم نے یہ شرح نمو کورونا وبا ، امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں حکومت کی تبدیلی، روس یوکرین تنازعہ سمیت دیگر مسائل کے منفی اثرات کے باوجود حاصل کی۔ ان مسائل کی وجہ سے ہماری معاشی نمو کو جھٹکا بھی لگا مگر مجھے امید ہے کہ ہم اپنے موجودہ معاشی مسائل پر قابو پالیں گے ۔ اس کیلئے ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے پر توجہ دینا ہوگی ۔ تمام شعبے کے افراد یہ چاہتے ہیں کہ پالیسیوں کو تسلسل حاصل ہو کیونکہ اس کے بغیر نہ تو سرمایہ کاری کو راغب کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی پائیدار ترقی ممکن ہو سکے گی ۔ یہاں پر میں میں موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ ان اقدامات سے ملک کو اقتصادی اور مالیاتی مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی ۔ میں دوست ممالک کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے ہماری مدد کی۔ آپ سب مجھے سے اتفاق کریں گے کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ کی کوششوں اور مدد سے مہنگائی پر انشا اللہ قابو پالیا جائے گا ، مگر اس کیلئے ہمیں جلد از جلد اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ گزشتہ دنوں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی اور ڈالر کی قیمت 240 روپے تک پہنچ گئی جو کہ اب تقریبا 223 روپے تک پہنچ گئی ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مزید مستحکم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے بدعنوانی ، اقربا پروری اور سفارش ختم کرنے پر خصوصی زور دیا اور ہمیں سول اداروں سمیت ملک میں تعیناتیوں میں میرٹ کو یقینی بنانا ہوگا۔ میں اس ایوان کی توجہ میڈیا کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور تشدد کے واقعات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں اور میں نے اس سلسلے میں وزیر اعظم کو خط بھی لکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا کو ہراساں کرنے سے پاکستانی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ میرے خط میں تمام صحافیوں کا نام لینا ممکن نہیں تھا مگر میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا اور صحافیوں کا تحفظ اور ان کی آزادی یقینی بنانا ہم سب کی اجتماعی اور آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے ۔ ہمارا آئین آزادی صحافت کی یقینی دہانی کراتا ہے اور تنقید کرنے کی بھی آزادی دیتا ہے ۔ صحافت کے اندر سچائی کو بھی پروان چڑھنا چاہیے ، زرد صحافت کی بھی حوصلہ ہونی چاہیے مگر ہر چیز کو اس کھاتے میں بھی نہیں ڈالنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سوشل میڈیا کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا فورم ہے جس کو بند نہیں کیا جا سکتا ۔ ہماری عدالتوں نے بوجوہ غلط فہمی کی بنیاد پر دو سال تک یو ٹیوب کو بند رکھا۔ ایسے اقدامات سے معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا ۔ ٹیکنالوجی پر پابندی لگانے اور سوشل میڈیا میں نوجوانوں اور بچوں کے خلاف کاروائی کرنا مسائل کا حل نہیں ۔ ہم ان فورمز پر پائی جانے والی فیک نیوز اور غیبت کے حوالے سے لوگوں کو تعلیم دیں اور انہیں اصل اور فیک نیوز میں فرق جاننے کیلئے تعلیم دینا ہوگی ۔ جدید دور کے مسائل کو پابندیاں لگا کر اور لوگوں کے خلاف کاروائی کر نے کے فرسودہ اور پرانے طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا ۔ ٹیکنالوجی کے فائدے کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہیں اور ہمیں اس کے منفی اور مثبت پہلووں کو بخوبی سمجھنا ہوگا۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ غیبت اور فیک نیوز کے حوالے سے میں نے اس ایوان کے سامنے قرآن کی آیات پیش کیں تھیں۔ میں ان دونوں چیزوں کو بہت تباہ کن سمجھتا ہوں اور قرآن میں غیبت کو بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ غیبت سوشل میڈیا اور واٹس ایپ جیسی ایپس کے ذریعے فروغ پا رہی ہے ۔ ہم اپنی پسند اور تعصب کے اعتبار سے معلومات کو بغیر تصدیق کے آگے بھیج دیتے ہیں ۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر بات بتانا اور پھیلانا بھی غیبت کے زمرے میں آتا ہے ۔ موقع و محل کے اعتبار سے انسان کے بات کرنے کے انداز اور الفاظ کے چنا میں فرق ہوتا ہے اور اگر ان عناصر کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر میری دوستوں سے کی ہوئی کوئی بات میری ماں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی جائے تو انہیں بھی اس پر بہت افسوس ہوتا۔ اس سلسلے میں ، آج کل آڈیو لیکس سامنے آئی اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے ۔ یہ ایک انتہائی سنگین پیش رفت ہے اور اس پر ہنگامی بنیادوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ فریقین میں سے کسی ایک کی رضامندی کے بغیر فرد (افراد) کے درمیان نجی گفتگو کو عام کرنا اخلاقی اور قانونی طور پر غلط ہے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے حکومت نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے کہ آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہیے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر یہ رحجان جاری رہا تو اہم سرکاری دفاتر میں کھل کر کوئی بھی بات نہیں کر سکے گا۔ میں خفیہ انداز سے ریکارڈ کی ہوئی آڈیو لیکس کو نہ ہی سنتا ہوں اور نہ ہی انہیں اہمیت دیتا ہوں۔ جو لوگ ایسی گفتگو کو اہمیت دیتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ کم از کم اس امر کا ضرور خیال رکھیں کہ قومی راز عیاں نہ ہوں ۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر گفتگو ہمیشہ غلط تصور کی جاتی رہی، کفار نے قرآن کی آیات اور احادیث نبویﷺ کو اس ہی مد میں لوگوں کو گمراہ کیا۔ ہمیں سیاق و سباق اور موقع و محل کا خیال رکھ بہت ساری گفتگو کوسمجھنا چاہیے۔ ہر چیز کو پکڑ لینا ، زیر بحث لانا اور اس پرجھگڑا کرنا مناسب نہیں ۔ بہت سی باتیں دوسرے لوگوں کے کانوں کیلئے نہیں ہوتیں۔ خاندان کے افراد کے ساتھ کی گئی گفتگو بھی اسی زمرے میں آتی ہے اور ایسی گفتگو کو عام کرنا بھی مناسب نہیں ہے اور اگر کر دیا جائے تو کتنا قابل افسوس عمل ہوگا۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہمارے ملک میں مثبت رفتار سے پیش رفت ہو رہی ہے ۔ صدر مملکت نے کہا کہ چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے زیادہ گہری ہے ۔ چین کے ساتھ ہمارے سدا بہار ، دیرینہ اور پائیدار تعلقات ہیں ۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات 60 کی دہائی سے بڑے متوازن انداز سے استوار ہیں ۔ ہمارے تعلقات کی بنیاد صرف مفادات نہیں بلکہ دوستی پر مبنی ہیں ۔ چین کے ساتھ ہمارا بہترین تعاون ہے اور یہ مستقبل میں بھی جاری رہیں گے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، امریکہ ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر اور دیرینہ دوست ہے ۔50 اور 60 کی دہائی سے شروع ہونے والے اس تعلق کو ہم مزید جاری رکھنے کے خواہاں ہیں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں اور میں یہاں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم تمام ممالک کے ساتھ باہمی وقار اور عزت و احترام پر مبنی تعلقات کے خواہاں ہیں۔
یورپ بھی ہمارا بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جی ایس پی پلس کے حوالے سے پاکستان اور یورپی ممالک کے مابین تعاون جاری رہے گا۔ ہم یورپ کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے حامل ہیں اور پاکستان نے افغانستان سے افواج کے انخلا کے دوران بھی خدمات اور راہداری فراہم کی اور ہم امید رکھتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان اور یورپ کے تعلقات کو مزید تقویت ملے گی۔ صدر مملکت نے کہا کہ سعودی عرب نے ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا اور انہوں نے ہمیں فنڈز کی فراہمی بھی یقینی بنائی۔ حرمین شریفین کی سیکورٹی اور تحفظ کیلئے ہم اپنی جانیں بھی دے سکتے ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ ، پاکستان اور ترکیہ باہمی احترام، خلوص اور قریبی تعاون کی تاریخ کے حامل ہیں جس کی بنیاد مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور لسانی میراث ہے۔ پاکستانی ترکیہ دوستی حالیہ نہیں بلکہ تاریخی ہے اور 19 ویںصدی کے اواخر میں بھی یہاں سے ترکیہ میں زلزلے اور جنگ کے سلسلے میں امداد فراہم کی جاتی رہی ہے ۔ خلیجی ریاستوں کے ساتھ بھی پاکستان کے بہترین تعلقات ہیں ۔ ان ریاستوں میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے جنہوں نے ان ریاستوں کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم خلیجی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں اور ان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
پاکستان ایک پرامن، دوستانہ، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پرامن افغانستان ہمارے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ ہم افغانستان میں پائیدار امن اور اس کے استحکام کے خواہاں ہیں کیونکہ افغانستان میں قیام امن کا پاکستان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ ہم افغانستان کو اپنے خطے کے لیے تجارتی اور توانائی کے رابطے کے راستے کے طور پر ابھرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان ہمیشہ کی طرح اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ آپ سب کی کاوشوں کی بدولت ہم فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل جائیں گے ۔ میں ہندوستان کے ہوالے سے یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ ہندوستان کے ساتھ دوستی اور امن ہو، مگر یہ خواہش ہندوستان کے کشمیر میں اقدامات کی وجہ سے پروان نہیں چڑھ سکتی۔ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیاجانا چاہیے ۔
ہندوستان کے ساتھ تمام معاملات خصوصا کشمیر کے مسئلے پر گفتگو ہونی چاہیے۔ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور ساتھ کھڑا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان ہندوتوا کی وجہ سے خود کو علیحدہ محسوس کر رہے ۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ سرکاری سطح پر اور ان کے زیر سایہ کارروائیاں ہوتی ہیں۔ اس سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ بھارتی معاشرے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ نقصان خود ہندوستان اپنے آپ کو پہنچا رہا ہے ۔
جینوسائڈ واچ کے مطابق جینوسائڈ کی دس سٹیجز ہیں اور ہندوستان آٹھویں اسٹیج تک پہنچ چکا ہے۔ مگر خطرناک بات یہ ہے کہ اب یہ معاملہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے اثرات دوسرے ممالک تک پہنچ رہے ہیں ۔ برطانیہ کے شہر لسیسٹر شائر میں سب نے دیکھا کہ لوگ کس طرح آپس میں لڑے ۔ قائد اعظم نے اتحاد ، تنظیم اور ایمان کی اہمیت پر خصوصی زور دیا ۔ ہم نے اتحاد کو تقسیم کی نظر کر دیا۔ یہ بات تاریخی طور پر طے ہے کہ صرف متحد قومیں ہی آزمائشوں سے نکل سکتی ہیں اور متحد قومیں ہی ترقی کرتی ہیں۔ قائد اعظم نے یہ بات 75 سال پہلے صرف عوام کے لیے ہی نہیں کہی تھی بلکہ ہمارے رہنماں کو بھی چاہیے کہ وہ قوم کے اندر اتحاد پیدا کریں اور انہیں آپس میں جوڑیں ۔
آج پاکستان کے اندر جو تقسیم ہے اس کی ایک وجہ سوشل میڈیا بھی ہے ۔ ہمیں اس پولرائزیشن سے گریز کرنا ہوگا ۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے بہت سے لوگوں نے بیانات دیے کہ تقسیم نہیں ہونی چاہیے اور بات چیت ہونی چاہیے ۔لہذا بے انتہا ضروری ہے کہ اس پولرائزیشن یا تقسیم کو ختم کیاجائے ۔ اس معاملے میں اپنی دانست میں کوشش کرتا رہتا ہوں اور کرتا رہوں گا ۔ کرپشن کے مسئلے پر میں سمجھتا ہوں کہ نیب کو مضبوط کرنا چاہیے ۔ اس میں ایک تو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیاجائے ۔ دوسرا ، اسے دوسروں پر ظلم اور ناانصافی کیلئے استعمال نہ کیا جائے ۔
یہ بات بھی طے ہے کہ دنیا کرپشن کے جرم کو دیگر جرائم کی طرح نہیں دیکھتی۔ سوئٹزر لینڈ اور برطانیہ کے قوانین میں بھی یہ چیزیں موجود ہیں کہ وائٹ کالز کرائم کی صورت میں ملزم کو اس بات کا ثبوت دینا ہوتا ہے کہ اسکے پاس دولت کہاں سے آئی ۔ کرپشن کی بیخ کنی کرنے کے موضوع پر سب متفق ہیں ۔ ہمارے سامنے حضرت عمر فاروق کی بھی مثال موجود ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس دو چادریں کہاں سے آئیں تو سوال کرنے والے نے یہ نہیں کہا کہ میں یہ ثابت کر رہا ہوں کہ یہ دو چادریں آپ نے غلط طریقے سے حاصل کیں ، بلکہ اس نے صرف یہ پوچھا کہ دو چادریں کہاں سے آئیں؟ اور حضرت عمر نے اس کا جواب دیا اور ان چادروں کا ذریعہ بیان فرمائی۔ یہاں پر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ مقننہ اتنی محنت سے قانون بناتی ہے اور بعض اوقات اس قانون کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے ۔
میں اپنی مثال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں میرے خلاف دہشت گردی کا الزام لگا کہ یہ بندوقیں سپلائی کرتا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف استعمال کرنے کے لیے لائے گئے قانون کو جب سیاسی طور پر استعمال کیا جائے گا تو یہ ایسا ہی ہو گا کہ مچھر مارنے کیلئے توپ کا استعمال کیا جائے ۔ یہ قانون کا صحیح استعمال نہیں۔ اس قانون کو توڑ مڑورکر ہر جگہ استعمال کرنا ٹھیک نہیں۔ آپ نے دیکھا کہ توہین رسالت کے قوانین کا بھی جب غلط استعمال یا تشریح ہوتی ہے تو اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ قوانین کو ان کے صحیح سیاق و سباق کے مطابق استعمال کیا جائے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی تقسیم کو ختم کرنے کیلئے سب سے بہترین حل منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے ۔
یہ سال انتخابات کا سال ہے تاہم انتخابات کا منعقد کرانا ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ قوم کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ طے کرلیں ۔ سیاسی قیادت کے مابین اس معاملے پر چند مہینے کا اختلاف ہے جس کا حل باہمی مشاورت سے ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔ صدر مملکت نے کہا کہ الیکشن کے معاملے کو سب مل بیٹھ کر طے کرلیں تو موجودہ تقسیم اور سیاسی صورتحال کو بہتر کیا جاسکتا ہے ۔ اسکے علاوہ ، ایک اہم موضوع جو کہ قومی اہمیت کا حامل ہے اور جس پر میں نے کافی کام کیا وہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا استعمال ہے ۔
اس پارلیمنٹ کے اندر اس کا میں نے ایک متفقہ دستاویز پیش کی تھی ۔ جس پر پارلیمنٹ کی کمیٹی میں یہ بحث ہوئی کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی مدد سے کیسے انتخابات شفاف انداز میں ہو سکتے ہیں اور اس معاملے پر پارلیمنٹ کی کمیٹی ، جس کو میں نے چیئر کیا تھا ، اس نے یہ طے کیا کہ اس کو بہتر کر کے لانچ کر دیا جائے مگر یہ آج تک نہیں ہوا۔ لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ الیکشن کے دن شفافیت کیلئے یہ مشین ضروری ہے۔ ای وی ایم پیچھے نہیں دیکھ سکتی کہ الیکشن سے پہلے کیا ہوا ، کس کو ووٹ ڈالنے کے لیے کس نے مجبور کیا ؟ یہ مشین صرف الیکشن کے دن اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ الیکشن منصفانہ اور شفاف ہوں ۔ اس میں پیپر کا بیلٹ بھی موجود ہے ۔
لہذا ، میں چاہتا ہوں کہ اس طرف آپ توجہ دیں۔ ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو اپنائیں۔ سی سی ٹی ویکیمروں کی مدد سے بہت سے جرائم کو روکا جا سکتا ہے ۔ ڈی این اے کی وجہ سے ریپ کے واقعات پکڑے جاسکتے ہیں یہ ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم دیگر شعبوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے انکار کریں ۔ صدر مملکت نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کا مشکور ہوں کہ وہ اپنی محنت سے کمائی گئی رقوم پاکستان بھیجتے ہیں ۔ ان کے ووٹ کا حق سپریم کورٹ نے بھی قبول کر لیا ہے۔
تقریبا90 فیصد سمندر پار پاکستانی محنت ، مزدوری اور روزگار کی مجبوری کی وجہ سے باہر جاتے ہیں۔ تو لہذا ، جو لوگ روزگار کے سلسلے میں باہر مقیم ہیں ان کو ووٹ کیلئے سہولت فراہم کرنے کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے ۔ تو اس بات کے لیے حکومت بھی احساس دلانے کی کوشش کر رہی ہے مگر اس کوشش کو کو اختتام تک پہنچانا چاہیے۔ صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ میں نے جو باتیں آپ کے سامنے رکھی ہیں ان میں کوشش یہ کی ہے کہ پاکستان کی ترقی اور پاکستان کے مستقبل کے اعتبار سے آپ سے گفتگو کر سکوں ۔ میرا ایمان ہے یہ قوم بڑی طاقتور ہے ۔
آپ نے جس انداز سے بین الاقوامی سطح پر اپنا رویہ رکھا ، آپ کے اندر بڑی سخاوت موجود ہے۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کو ملک میں پناہ دیئے رکھی ۔ آپ نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔ جب بھی ضرورت پڑی تو پاکستان نے دل کھول کر مدد کی ۔ پاکستانی قوم کے اندر بے پناہ صلاحیت موجود ہے اور اس صلاحیت سے پورا فائدہ اٹھانے کیلئے ہمیں قائد اعظم کی کہی ہوئی باتوں کو مدنظر رکھنا ہوگا اور ہمیں پاکستان کی ترقی کیلئے بچوں کو تعلیم اور صحت دے کر ،
اس ملک کو مستحکم اور طاقت ور بنا کر اور غریبوں کا خیال رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ایسا کرنے کی صلاحیت اس قوم میں موجود ہے ۔ یہ مٹی سونا ہے اور یہاں کے لوگ کندن ہیں ۔ صدر مملکت نے مولانا جلال الدین رومی کے اقوال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپنے آپ سے محبت کرو، اپنے خاندان سے محبت کرو، اپنے پڑوسیوں سے محبت کرو،اپنی قوم سے محبت کرو، انسانیت سے محبت کرو، اللہ کی بنائی ہوئی سب چیزوں سے محبت کرو، میرے آخری نبی ۖ سے محبت کرو اور پھر اللہ تعالی سے محبت کے سارے راستے کھل جاتے ہیں ۔