لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وزیر آباد میں لانگ مارچ کے دوران مجھے تین گولیاں لگیں، حملہ کرنے والے دو تھے، شائد تین بھی ہو سکتے ہیں، حملے کے بعد معاملے پر کیوں پردہ ڈالا جا رہا ہے، کوئی آزادانہ تحقیقات کیوں نہیں ہو رہیں، آزاد اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے، ایجنسیاں اس کے ماتحت ہوں۔ہمیں مقبولیت کے لیے کسی پر الزام لگانے کی ضرورت نہیں۔
سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین کا کہنا تھا کہ میرے دائیں ٹانگ میں 3 گولیاں لگیں، گولیاں لگنے سے ہڈیوں متاثر ہوئی ہیں، مجھے بالکل ٹھیک ہونے میں چار ہفتے سے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ درکار ہے۔
میزبان نے سوال کیا کہ جن تین افراد پر آپ قتل کے الزامات لگا رہے ہیں ان کے خلاف کوئی ثبوت ہیں اس سوال کے جواب میں پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ دو ماہ قبل میرے قتل کا منصوبہ بنایا گیا، میں 24 ستمبر کو عوام میں تھا، احتجاج کر رہا تھا، جب مجھے حکومت سے نکالا گیا تو سب سمجھنے لگے تھے کہ ہماری پارٹی ختم ہو جائے گی، میرے ملک میں 30 سال سے دو پارٹیاں حکومت کر رہی تھیں، میری حکومت کو ختم کرنے کے بعد ایسا لگ رہا تھا میری پارٹی ختم ہو جائے گی تاہم اس دوران پی ٹی آئی کو وہ مقبولیت ملی جو ان دو پارٹیوں کے پاس نہیں تھی، اس دوران ضمنی الیکشن ہوئے تو میری جماعت نے 75 فیصد الیکشن جیتے، مجھے نا اہل کروانے کی پلاننگ ہوئی اس کے لیے ایک بڑا منصوبہ بنایا گیا، میں بتانا چاہتا ہوں اگر لوگوں کو بیک گراؤنڈ نہیں پتہ ہو گا تو وہ کیسے سمجھیں گے کہ مجھ پر کیوں حملہ ہوا، مجھے راستے سے ہٹانے کے لیے بھرپور کوششیں کی گئیں، اس کے لیے مذہبی جنونیت کا سہارا لینے کی کوشش کی گئی، اس کے لیے ایک صحافی کی طرف سے ایک ویڈیو بھی سامنے آئی، اس دوران وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے پریس کانفرنس کی اور کہا عمران خان عوام کے جذبات ابھار رہا ہے، اسی وقت میں عوام سے مخاطب ہوئے کہا کہ حکمرانوں نے ایک منصوبہ بنا ہوا ہے، یہ لوگ مجھے مروانا چاہتے ہیں، جس کیلئے مذہب کا سہارا لیا جائے گا۔
"We don t need to accuse people get more popular in this country."
— Becky Anderson (@BeckyCNN) November 7, 2022
Pakistan s former PM @ImranKhanPTI tells me he does not need to blame any government for being ousted in order to get back into power.
2/2 pic.twitter.com/CRs7NUsnPQ
ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجھ پر حملہ کرنے والے دو افراد شامل تھے، ایک ملزم پکڑا گیا ہے اسکی فائرنگ کے بعد میں اور میرے دیگر ساتھی کنٹینر پر نیچے گر گئے، اسی وجہ سے ہم بچنے میں کامیاب ہو گئے، عوام میں ایک کارکن نے حملہ آور کی بندوق کو نیچے گرا دیا ورنہ ہم مارے جاتے۔ ایک اور گولی چلی جو میرے سر کے اوپر سے گزر گئی، یہ مکمل طور پر پلاننگ کے ساتھ کیا ہوا منصوبہ ہے، اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں، اس کے بعد میں عوام سے مخاطب ہوا اور بتایا کہ اس قاتلانہ حملے کیلئے مذہب کا سہارا لیا گیا، اس حملے کے بعد معاملے پر پردہ کیوں ڈالا جا رہا ہے، کوئی آزادانہ تحقیقات کیوں نہیں ہو رہیں، وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سمیت تین افراد حملے میں ملوث ہیں، اگر آزاد اور شفاف تحقیقات ہوں اور انویسٹی گیشن ایجنسیاں اس کے نیچے ہوں، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال سے بھی اپیل کی ہے انکوائری کے لیے کمیشن بنایا جائے، اگر میں غلط ہوں تو کمیشن مجھے غلط ثابت کرے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مجھ پر حملہ پلاننگ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ دو ماہ پہلے بنایا تھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں ہونے والے سروے ہمارے حق میں ہیں اور 75 فیصد ضمنی الیکشن میری پارٹی جیت چکی ہے، مجھے سب کچھ پتہ ہے کیا ہوا ہے، ماضی کو دیکھتے ہوئے جن دو لوگوں کو نامزد کیا ہے، ان میں شہباز شریف، رانا ثناء اللہ شامل ہیں، دونوں قاتل ہیں، دونوں سیاسی احتجاج کے دوران عوام پر شدید فائرنگ کی۔ ماڈل ٹاؤن بھی اس کی بہترین مثال ہے۔ وزیر آباد کے حملے کے بعد ہمیں پتہ ہے کس نے ملزم کی ویڈیو شیئر کی۔
میزبان کی طرف سے سوال کیا گیا کہ آپ پر پیمرا نے پابندی لگا دی جس کو بعد میں وفاقی حکومت نے ختم کر دیا، اس پر جواب دیتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ارشد شریف پاکستان کا بہترین انویسٹی گیٹڈ صحافی تھے، جنہیں چند ہفتے قبل کینیا میں قتل کر دیا گیا، پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ تھا، اس خطرے کو بھانپتے ہوئے وہ دبئی کے راستے کینیا چلے گئے، اسی دوران میرے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گل اور پاکستان تحریک انصاف کےسینٹر اعظم سواتی پر بدترین تشدد کیا گیا، دونوں نے ادارے کے سینئر افسر پر الزام لگایا، وہ ہم پر ہونے والے تشدد کے ذمے دار ہیں۔ ان چیزوں کو ہم سامنے لاتے ہیں جس کی بناء پر مجھ پر پابندی لگا دی جاتی ہے، یہ کن بنیادوں پر مجھ پر پابندی لگا رہے ہیں، میں نے کونسی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
"How did I get the information? From within the intelligence agencies."
— Becky Anderson (@BeckyCNN) November 7, 2022
Former Pakistani PM @ImranKhanPTI tells me about the attempted assassination on his life:
1/2 pic.twitter.com/cQVHKsaE9I
انہوں نے کہا کہ میں تین سال سے زائد اقتدار میں رہا، میرے مختلف انٹیلی جنسیوں میں لوگوں کے ساتھ رابطے ہیں، انہی کی طرف سے مجھ پر حملہ کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ میں نے پرویز مشرف کے مارشل لاء کے دور میں جیل کاٹی تھی، ملک میں جو اس وقت ہو رہا ہے اس طرح تو سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی نہیں ہوا۔
اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پاک فوج ہماری ہے، اس کیخلاف جانا ممکن نہیں۔ اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
صحافیوں کی وفد سے ملاقات کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین نے کہا کہ لانگ مارچ کے شیڈول میں تبدیلی کردی گئی ہے، شاہ محمود قریشی وزیرآباد سے لانگ مارچ کی قیادت کریں گے جبکہ اسد عمر فیصل آباد سے قافلے کی قیادت کریں گے۔ فیصل آباد سے مارچ جھنگ، سرگودھا، میانوالی اور لیہ سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری اور نوازشریف سے کبھی سمجھوتا نہیں ہو سکتا، پوری قوم اب تیار ہے، الیکشن کی تاریخ لیکر ہی واپس آئیں گے، میرا لانگ مارچ ہر صورت میں منزل حاصل کرے گا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ سرحدوں پر کھڑے فوجی میرے بچوں کی طرح ہیں، آرمی چیف کی تقرری میرا ایشو نہیں، پاک فوج ہماری ہے اور اس کے خلاف جانا ممکن نہیں۔
ملزم نامزد کر چکے، ایف آئی آر درج ہونی چاہیے:عمران خان
زمان پارک میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی پارٹی رہنمائوں اور لیگل ٹیم کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں وزیراباد واقعے کی ایف ائی آر کے اندراج میں تاخیر کا جائزہ لیا گیا۔ مشاورت میں سپریم کورٹ کی طرف سے مقدمے کے اندراج کیلئے پنجاب پولیس کو جاری ہدایات پر بھی غور کیا گیا۔
مقدمہ کے مدعی زبیر خان نیازی نے بتایا کہ تھانہ وزیراباد میں وکلاء بیٹھے ہوئے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی مجبور ہو کر پولیس کمپلنٹ سنٹر میں آن لائن درخواست جمع کروائی ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم درخواست میں ملزم نامزد کر چکے ہیں انکے خلاف ایف ائی آر درج ہونی چاہئیے۔
عمران خان کا صدر کو خط
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خط لکھ کر ملک میں آئین و قانون کے انحراف کی راہ روکنے کیلئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
عمران خان نے کہا کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت کو گرایا گیا ہے، قوم میری حقیقی آزادی کی پکار پر کھڑی ہوچکی ہے، ہمیں جھوٹے الزامات، حراسگی، بلاجواز گرفتاریوں حتیٰ کہ زیر حراست تشدد جیسے ہتھکنڈوں کا سامنا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے وزیراعظم، وزیر داخلہ سمیت تین اعلیٰ شخصیات کا نام لے کر کہا کہ ان کا میرے قتل کا منصوبہ میرے علم میں آیا، گزشتہ ہفتے مارچ کے دوران اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی، اللہ نے مجھے بچایا۔
عمران خان نے کہا کہ بطور سربراہ ریاست اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور پر آپ سے التماس ہے کہ قومی سلامتی سے جڑے ان معاملات کا فوری نوٹس لیں، اپنی قیادت میں ذمہ داروں کے تعین کیلئے تحقیقات، ان ذمہ داروں کے محاسبے کا اہتمام کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ بطور وزیراعظم میرے، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے مابین گفتگو میڈیا کو جاری کر کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں، سنجیدہ ترین سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی محفوظ گفتگو پر نقب لگانے کا ذمہ دار کون ہے، وزیراعظم کی محفوظ لائن پر یہ نقب قومی سلامتی پر اعلیٰ ترین سطح کا حملہ ہے۔
عمران خان نے کہا کہ میری وزارت عظمیٰ کے دوران سائفر پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں واضح فیصلہ کیا گیا کہ یہ ہمارے اندرونی معاملات میں ناقابل قبول مداخلت ہے، شہباز شریف حکومت میں قومی سلامتی کے اجلاس میں اس اجلاس کی کارروائی، فیصلوں کی توثیق کی گئی، مگر 27 اکتوبر کو ڈی جیز نے مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس میں قومی سلامتی کمیٹی کے دونوں اجلاسوں کے فیصلوں سے یکسر متضاد نکتہ نظر اپنایا گیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ سوال پیدا ہوتا ہے دو افسران کیونکر کھلے عام قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کو جھٹلا سکتے ہیں، اس پریس کانفرنس سے جان بوجھ کر غلط بیانیے کی تخلیق کی کوشش کا سنجیدہ ترین معاملہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
عمران خان نے خط میں کہا کہ دو اہم ترین سوالات بھی جنم لیتے ہیں، اوّل یہ کہ ایجنسی کا سربراہ پریس کانفرنس سے مخاطب ہو کیسے سکتا ہے، دو افسران کیسے سیاسی جماعت کے سربراہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایس پی آر کے حدود کار کو دفاعی و عسکری معاملات پر معلومات کے اجراء تک محدود کرنے کی ضرورت ہے، افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور آپ سے التماس ہے کہ آپ آئی ایس پی آر کی حدود کار کے تعین کے عمل کا آغاز کریں۔